پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اس میں جان نکل جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو گناہ چھوڑنا موت معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو مرنے سے تعبیر کیا ہے تو جینا اور مرنا کیا ہے؟ اللہ کے لیے جیتے رہو یعنی اللہ کو راضی کرتے رہو اور اللہ پر مرتے رہو یعنی گناہ چھوڑتے رہو، گناہ کی لذت چھوڑنے کی تکلیف برداشت کرتے رہو یہاں تک کہ موت آجائے۔ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری عبادت کرتے رہو یعنی مجھ کو راضی کرتے رہو اور میری ناراضگی سے بچتے رہو یہاں تک کہ تم کو موت آجائے اور میرے بن کر میرے پاس آجاؤ پھر ہم کہیں گے:فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْداخل ہوجاؤ میرے نیک بندوں میںوَادْخُلِیْ جَنَّتِیْپھر جاکے حوروں سے لپٹ جاؤ اور جنت کی نعمتیں استعمال کرو اور پھر آؤ، اللہ والوں سے ملو۔ ان سے بار بار ملتے رہو اور جنت کا لُطف بڑھاتے رہو کیوں کہ اللہ والوں سے ملنے میں اللہ کی محبت و معرفت نصیب ہوگی اور اللہ کی محبت و معرفت جتنی زیادہ ہوگی اُتنا ہی زیادہ حوروں میں اور جنت کی نعمتوں میں مزہ آئے گا۔اہلِ دل کون ہیں ارشاد فرمایا کہاہل دل ان کو کہا جاتا ہے جو اپنا دل اللہ کو دیتے ہیں اور دل دینے کے معنیٰ کیا ہیں؟ کیا آپریشن کراکے دل نکال کر مسجد کی طاق میں لاکر چڑھادیتے ہیں؟ نہیں! دل دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ دل کے اندر جو خواہشات ہیں ان کو اللہ پر فدا کردو یعنی اللہ کی مرضی پر چلو، اپنی مرضی کو چھوڑ دو۔ اللہ کی مرضی پر چلنے کا نام بندگی ہے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں دل پر غم اُٹھانے والے اور اللہ کی فرماں برداری کرنے والے اہلِ دل کہلاتے ہیں۔ اسی پر میری فارسی مثنوی کا شعر ہے ؎ اہلِ دل آں کس کہ حق را دِل دہد دل دہد او ر ا کہ دِل را می دہد ------------------------------