پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
نے فرمایا:نفسِ امارہ سے کوئی بچ نہیں سکتا لیکن جس پر اللہ کی رحمت ہو، جب اللہ کی رحمت ہوگی تو بے شک نفس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن رحمت اُسی کو ملتی ہے جو لعنتی عمل سے بچے۔ اس لیے بدنظری نہ کرو، جو اللہ کے خاص بندے ہیں وہی اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں اور جو اللہ سے دور ہیں وہی حسینوں پر مرتے ہیں کہ آہ! کیا پیاری شکل ہے، ایسی موہنی شکل تو میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ عقل کے اندھے اور اُلّو ہیں جو پا خانے پر لگے ہوئے چاندی کے ورق پر عاشق ہورہے ہیں اور پاخانے سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ ابھی وہ حسین منہ پر ہگ دے تو عشق کا بھوت اُتر جائے گا۔ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے، اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے۔حُسنِ مجازی پر عاشق ہونا گُو مُوت پر عاشق ہونا ہے۔ ان حسینوں کے پاس گُو موت کے علاوہ اور کیا ہے۔ میرا شعر ہے ؎ آگے سے موت پیچھے سے گُو اے میرؔ جلدی سے کر آخ تھو کتنے بڑے سے بڑا حسین ہو آگے سے مُوت ہی نکالے گا، عرقِ گلاب نہیں نکالے گا اور پیچھے سے گُو ہی نکلے گا زعفران نہیں ہگے گا۔ اگر یہ عرقِ گلاب مُوتتے اور زعفران ہگتے تو جتنے فقیر ہیں حسینوں کو دیکھ کر ان کے پیچھے کاسہ لے کر دوڑتے کہ گھر میں آٹا دال نہیں ہے، بچے بھوکے مررہے ہیں زعفران کا ذرا سا لینڈ نکال دیجیے، میرے بچوں کی پرورش ہوجائے گی، آہ کیا دھوکا ہے، کتنا ہی حسین ہو آگے سے مُوت ہی ملے گا اور پیچھے سے گُو ہی نکلے گا۔ کہاں ایمان ضایع کرتے ہو۔ آخر ایک دن اللہ کو منہ دکھانا ہے۔قصہ بازشاہی اور اُلّو ستان ارشاد فرمایاکہجو مومن اپنی ناجائز آرزوؤں کا خون پیے گا اور تقویٰ سے رہے گا اس کا ایمان بہت شاندار ہوگا اور اس کا بیان بہت جاندار اور مزے دار ہوگا، خوب سمجھ لو کہ آرزو کا خون پینا ہی راہِ تقویٰ کی جان ہے جس نے اپنی حرام آرزو کا خون نہیں کیا وہ کیا جانے کہ تقویٰ کیا چیز ہے۔ جو حسینوں کو دیکھتا رہتا ہے وہ الّو ہے اور اُلّوستان کا رہنے والا ہے۔ اُلُّوستان مولانا رومی کی اصطلاح ہے جس کے معنیٰ ہیں