پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے غم سے پناہ مانگنے کی تعلیم اپنی امت کو تلقین فرمائی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ؎ اے اللہ! میں ہمّ اور حزن سے پناہ چاہتا ہوں،ھم اس غم کو کہتے ہیںاَلَّذِیْ یُذِیْبُ الْاِنْسَانَ؎ جو انسان کو گُھلادے اور حزن اس سے کم درجہ کا غم ہے۔ غم کو طلب کرنا گویا اللہ تعالیٰ کو پہلوانی دکھانا ہے حالاں کہ ارشادِ ربانی ہے وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا۔ انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا۔ خُلِقَ مجہول کا صیغہ ہے، ضعیف پیدا کرنے کی نسبت اپنی طرف نہیں فرمائی اور تعلیم فرمادی کہ نقص کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کرے۔ پس جب ہم ضعیف ہیں تو غم کو طلب نہ کرے۔ ہاں اگر غیر اختیاری طور پر خود بخود غم آجائے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے۔ لیکن یہ ایسا انعام ہے جس کا مانگنا جائز نہیں،یہ ایسا مہمان ہے جس کا بلانا جائز نہیں،مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ۔ جو اچھائی تمہیں پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تمہیں پہنچے وہ تمہارے نفس کی شرارت، جسارت، دناء ت، حماقت اور نجاست ہے۔آیت کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ کے متعلق ایک علمِ عظیم میرے شیخِ اوّل حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے چٹنی روٹی میں بھی بریانی کا مزہ آرہا ہے اس لیے کہ میرے مولیٰ کھلارہے ہیں۔ حضرت نے ہر نوالے پر یہی فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ تو اپنے ہاتھ سے کھارہے ہیں۔ فرمایا: میرا ہاتھ ان ہی کی رحمت سے کام کررہا ہے، لہٰذا میرے ہاتھ میں ان ہی کا ہاتھ چُھپا ہوا ہے کیوں کہ اگر فالج گرادیں تو یہ ہاتھ منہ تک نہیں آسکتا۔ اگر مجنون کو لیلیٰ اپنے ہاتھ سے کھلائے تو اسے کتنا مزہ آئے گا لیکن درحقیقت لیلیٰ فانی ہے اور اس کا حسن بھی فانی ہے جب کہ مولیٰ غیر فانی ہے اور حی و قیوم ہے ؎ ------------------------------