پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کو بندہ اپنی محدود قوتوں سے کیسے طے کرسکتا ہے؟ اس لیے بندہ کو جب اللہ تعالیٰ جذب کرتے ہیں تب سلوک طے ہوجاتا ہے۔ سلوک کی تکمیل جذب پر موقوف ہے اس لیے اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو جذب کرلے۔ مانگنے کی دلیل کیا ہے؟ اَللہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؎ اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمادیا کہ میرے اندر ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میں جس کو چاہتا ہوں جذب کرلیتا ہوں اور اس مَنۡ یَّشَآءُ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ یہ خوبی ہو یا وہ خوبی ہو تب میں اس کو جذب کروں گا۔ بس میرے چاہنے پر موقوف ہے۔ میں چاہوں تو سو برس کے کافر کو جذب کرلوں اور ایک پل میں وہ ولی اللہ ہوجائے۔ بتائیے کافروں میں کوئی خوبی ہوتی ہے؟ بلکہ خوبیوں کا عکس اور تضاد ہوتا ہے، کفر اور بغاوت ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مَنۡ یَّشَآءُ جس کو چاہوں میں جذب کرلوں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے جذب مانگو۔ یہ جذب کا راستہ آسان اور سلامتی اور خیریت کا ہے اور سالک کو مردود ہونے کا خطرہ رہتا ہے لیکن مجذوب مقبول ہوجاتا ہے کیوں کہ کھینچتے ہی اس کو ہیں جس کو محبوب بنانا چاہتے ہیں۔اور جذب کا ایک خفیہ راستہ بتاتا ہوں۔ کسی مجذوب کا ہاتھ پکڑلو! جیسے کسی کو کرنٹ لگا ہو تو اس کو پکڑنے سے پکڑنے والے کو بھی کرنٹ لگ جاتا ہے لیکن دنیا کا کرنٹ ہلاک کردیتا ہے اور اللہ کا کرنٹ حیات دیتا ہے، کسی اللہ والے کی صحبت میں رہو تو تم بھی مجذوب ہوجاؤ گے، اللہ والے ہوجاؤ گے۔ آخر میں میزبان کے لیے فرمایا کہ یوسف ڈیسائی کی خوشی نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گھر پر وہ مضمون بیان کرایا جو اس سفر میں کہیں بیان نہیں ہوا۔ یہ ان کے اخلاص کی برکت ہے۔تجلیاتِ جذب کے زمان و مکان ارشاد فرمایا کہ ہر شخص یہ سمجھے کہ مجھ سے بُرا دنیا میں کوئی نہیں ------------------------------