پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کر درختوں پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہ دریائی گاؤ موتی اُگل کے دور چلا جاتا ہے تو اس موتی پر مٹکا گرادیتے ہیں جس مٹی میں وہ موتی چُھپ جاتا ہے۔ وہ گاؤ جب آتا ہے وہاں دیکھتا ہے کہ میرا موتی نہیں ہے، اور جس مٹی میں موتی چُھپا ہوتا ہے اس کے پاس بھی آتا ہے مگر پہچان نہیں پاتا اور مایوس ہوکر دریا میں چلا جاتا ہے اور تاجر موتی لے کر بازار میں لاکھوں روپے کا فروخت کردیتے ہیں۔ جیسے جانور نے نہیں دیکھا کہ یہاں میرا موتی چُھپا ہے، ایسے ہی بعض نادان مرید کو بھی محسوس نہیں ہوتا کہ میرے شیخ کے اندر نورِ ولایت کا موتی چھپا ہوا ہے اور وہ بھی مثل جانور کے محروم رہ جاتا ہے اور دوسرے مثل تاجر کے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل اللہ کے دل میں نسبت مع اللہ کا جو موتی ہے اگر تم اس سے باخبر ہوتے تو جانور کی طرح سے عمل نہ کرتے بلکہ ان کے سامنے تم بچھ جاتے۔ خود کو مٹادیتے، انا کو فنا کردیتے۔ مولانا رومی نے فرمایا کہ شیخِ اول کے بعد دوسرا شیخ کرو تو دوسرے شیخ کو حقیر نہ سمجھو۔ یہ نہ سمجھو کہ میرا شیخ اول مفتیٔ اعظم تھا، بڑا عالم تھا، دوسرے شیخ سے بڑا صاحبِ نسبت تھا۔ تمہیں کیا خبر، ہوسکتا ہے موجودہ شیخ پہلے شیخ سے بھی زیادہ اللہ کے نزدیک اُونچا ہو اپنے مجاہدات اور قربانیوں کی وجہ سے، یہ شیطان کا دھوکا ہے۔ جس زندہ شیخ سے اب فیض پہنچ سکتا ہے اس کو معمولی دکھارہا ہے اور انتقال کے بعد فیض بند ہوجاتا ہے اس کو بڑا دکھا رہاہے جس سے اب کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا۔ مردہ شیخ سے اصلاح نہیں ہوتی۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جتنا اپنے شیخ سے حُسنِ ظن کروگے اُتنا ہی فیض پاؤگے۔ شیخ سے فیض لینا اس کے ساتھ حُسنِ ظن پر ہے۔ جتنا حُسنِ ظن، نیک گمان رکھو گے اُتنا ہی فیض ہوگا۔ مگر شیخ صاحبِ نسبت ہو اور کسی اللہ والے کا اجازت یافتہ ہو، متبعِ سنت و شریعت ہو۔زندہ شیخ کا فیض اور اس کی مثال اب تیسری نصیحت سنو، مولانا روم نے فرمایا ؎ کے دہد زندا نئے در اقتناص مردِ زندانیٔ دیگر را خلاص