پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
سے تعلق کمزور ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد ہماری جان کی جان ہے لہٰذا جب جان نکل جائے گی تو پریشانی کیوں نہ آئے گی؟ سارا عالم مل کر اس کی مدد کرے اور اس کے دل میں سکون پہنچانے کی کوشش کرے تو اللہ کے نافرمان کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا، اللہ کے ایک باغی کو دنیا اور آخرت میں کہیں چین نہیں مل سکتا اور یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ نانی یاد آگئی؟ اس لیے کہ اماں جب بچہ کو مارتی ہے تو بچہ سوچتا ہے کہ اب کس کو بُلاؤں؟ تو غور کرتا ہے کہ ماں کے اوپر نانی کا حق ہے۔ نانی اماں کو تھپڑ لگائے گی تو اماں مارنا چھوڑ دے گی تو اماں کی اماں کو بُلاتا ہوں کہ نانی اپنی بٹیا (بیٹی) کو روکو کہ مجھے مارنا بند کردے۔ نانی یاد آنے کی وجہ آج سمجھ میں آگئی؟ (سب نے کہا کہ آج پہلی دفعہ یہ وجہ سنی ہے پھر فرمایا کہ) لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے نانی بھی کچھ نہیں کرسکتی کیوں کہ ساری مخلوق اللہ کے سامنے عاجز، محتاج اور حقیر ہے۔ اگر ایک اندھا دوسرے اندھےکو بُلائے تو اندھا اس کی مدد کرسکتا ہے؟ اللہ کے مقابلے میں پوری دنیا مدد نہیں کرسکتی۔ گناہ پر جرأت کرنا یہ حماقت، گدھا پن اور بے وقوفی ہے۔ گناہ گار کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اور وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار اور توبہ کرے، اللہ ہی سے رجوع کرے، اللہ کی طرف سے آئی ہوئی مصیبت اللہ ہی ٹال سکتا ہے۔ کوئی طاقت ایسی نہیں جو اللہ کے عذاب کو ٹال دے۔گناہِ بے لذت مولانا مصطفی کامل نے جب حضرتِ والا کا یہ شعر پڑھا ؎ مزے کی بات تو یہ ہے کہ کچھ مزہ بھی نہیں گناہ کرنے میں ہے سینکڑوں پریشانی حضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ گناہ کی ابتدا ہی سے دل پر پریشانی کا عذاب آجاتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو دل کی بات بھی جانتا ہے، دل کے اندر جو گناہ کا وسوسہ آتا ہے اس سے بھی وہ باخبر ہے۔ گناہ کرنا تو درکنار گناہ کا خیال آجائے اور دل حرام لذت کا کوئی ذرہ چرالے تو عذاب کے جوتے دل پر برس جاتے ہیں چاہے بظاہر وہ کتنا ہی مسکراتا ہو لیکن دل میں عذاب محسوس کرتا ہے۔ جب تک توبہ نہ کرے چین نہیں پاتا۔ کتنے لوگوں نے