پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
مورخہ۲۳؍ربیع الاول ۱۴۲۵ھ مطابق ۱۲؍مئی۲۰۰۴ء،بروز بدھ، بعد مغربمجلس بَر مکان جناب یوسف ڈیسائی صاحب ، اسٹینگر عشقِ مجازی کی ذلت اور عشقِ حقیقی کی شرافت ارشاد فرمایا کہجتنے عاشقِ مجاز ہیں ان سے بڑا بے وقوف اور احمق میں نے کوئی نہیں پایا کیوں کہ جس معشوق پر فدا ہوتے ہیں پھر اسی معشوق سے کتراتے پھرتے ہیں، اس کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور اس سے بات بھی نہیں کرتے۔ جس کو روزانہ بریانی اور پلاؤ کھلارہے تھے اس کو دیکھ کر سوکھی روٹی بھی دینے کو تیار نہیں۔ ان کی زندگی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ عاشقِ مجاز تو مر کے بھی چین نہیں پاتے۔ بس اللہ تعالیٰ مجھ کو اور میرے دوستوں کو اور ہر مسلمان کو اس عذاب سے پناہ میں رکھے۔ عشقِ مجازی میں زندگی ضایع ہوتی ہے۔ کیوں کہ محبوبانِ مجازی سب فانی ہیں۔ محبوبِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی محبت کے قابل ہی نہیں یا جو لوگ محبت کے قابل ہیں وہ اللہ والے ہیں کیوں کہ اللہ کی محبت ان سے ملتی ہے اس لیے ان کی خدمت کی جاتی ہے۔ بغیر اللہ والوں کی محبت کے اللہ تعالیٰ کا ملنا ناممکن ہے۔ بزرگوں کا اس پر اجماع ہے، صوفیا کا بھی اور علماء کا بھی کہ اللہ والوں کی صحبت ہی سے نفس فنا ہوتا ہے، چاہے جلدی یا دیر سے، یہ اپنی اپنی صلاحیت پر ہے۔ سوکھی لکڑی جلدی جل جاتی ہے اور گیلی لکڑی سُوں سُوں کرتی ہے اور بہت دیر کے بعد اس میں آگ لگتی ہے۔ مگر اللہ والوں کی صحبت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اگر کوئی بزرگ بہت مشہور ہے اور طالب پوچھتا ہے کہ یہ کس کے صحبت یافتہ ہیں لیکن اگر یہ پتا چلے کہ کسی کے صحبت یافتہ نہیں ہیں تو آدمی کا اعتقاد ختم ہوجاتا ہے کیوں کہ کسی اللہ والے کی صحبت کے بغیر اللہ نہیں ملتا۔ اللہ والوں کی محبت اللہ ہی کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہی محبت قائم رہتی ہے، دنیاوی محبت قائم نہیں رہتی۔ میراشعر ہے ؎ میر کا معشوق جب بڈھا ہوا بھاگ نکلے میر بڈھے حُسن سے