پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
چاہیے، وہ باقی ہے اور کافی ہے بندہ کے لیے۔فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ؎ اس کی شان ہر وقت نئی ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ یہاں یوم کے معنیٰ دن کے نہیں ہیں بلکہ وقت کے ہیں۔اَیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ وَفِی کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحْظَاتِ وَفِی کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ ھُوَ فِی شَأنٍ؎ ہر وقت، ہر لحظہ، ہر لمحہ اس کی نئی شان ہے اور دنیاوی معشوقوں کا یہ حال ہے کہ بیوی جب ستر برس کی ہوجائے گی تو اس کی چھاتیاں ایک ایک فٹ لٹک جائیں گی، گال پچک جائیں گے، منہ میں دانت نہ رہیں گے، بڈھی عورت کے گال کا کوئی بوسہ لینا چاہے تو پہلے ہونٹوں سے پچکے ہوئے گالوں کو اٹھانا پڑے گا پھر بوسہ لے سکتا ہے۔ کیا فانی چیزیں ہیں! ان چیزوں سے دل نہ لگاؤ، بیوی اللہ کی نعمت ہے، حق ادا کردو لیکن دنیا دل لگانے کے قابل نہیں ہے ورنہ اللہ تعالیٰ دنیا کو ہمیشہ تر و تازہ رکھتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دنیا کو دل لگانے کے لیے بناتے تو اللہ تعالیٰ بڑھاپا پیدا ہی نہیں کرتے، کوئی بڈھا نہ ہوتا، ہر شخص جوان رہتا۔ جوانی کا بڑھاپے سے تبدیل ہوجانا، حسن کا زائل ہوجانا خود دلیل ہے کہ دنیا دل لگانے کے لیے نہیں۔ اپنی بیویاں مستثنیٰ ہیں، ان کی بڑھاپے میں اور زیادہ محبت اور خدمت کرو۔سنتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بخار آیا تو آپ ہائے ہائے کررہے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ آپ اتنے بڑے بہادر صحابی ہیں اور بخار میں ہائے ہائے کررہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخار اسی لیے دیا ہے کہ میری ہائے ہائے سُنیں، میری پہلوانی دیکھنے کے لیے مجھ کو بخار نہیں دیا کہ میں بہادر بن جاؤں اور کہوں کہ یا اللہ! مجھے اور بخار دے دو میں پہلوان ہوں میں ہائے ہائے نہیں کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیماری میں ہائے ہائے کرنا بندگی کا تقاضا ہے اور سنتِ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ ------------------------------