پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
سال کی عمر کی بات ہے۔ جب میں پندرہ سولہ سال کا ہوگیا اور حکمت پڑھنے لگا تو معلوم ہوا کہ امام صاحب حافظ ابوالبرکات صاحب تھے جو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ میں پھر ضلع سلطان پور کے اسی محلہ کی مسجد میں گیا اور ان سے کہا کہ مجھے مرید کرلیجیے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا خلیفہ تو ہوں مگر میرے خلافت نامہ میں للعوام لکھا ہوا ہے یعنی عام لوگوں کے لیے اور آپ عوام میں نہیں ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے کیا دیکھا حالاں کہ اس وقت میں طبیہ کالج میں پڑھتا تھا، مولوی بھی نہیں ہوا تھا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اچھی جگہ سے جوڑ دے۔پانچ سال کے بچہ کا مسجد دیکھ کر خوش ہونا اور اللہ والوں کو دیکھ کر خوش ہونا کیا یہ علامتِ جذب نہیں ہے؟ پھر میں جب دس سال کا ہوا اور مڈل کے درجۂ پنجم میں پڑھنا شروع کیا تو جنگل کی مسجد میں جاکر نماز پڑھتا تھا جہاں سناٹا تھا، کوئی نہیں ہوتا تھا۔ پھر جب طبیہ کالج میں پڑھتا تھا تو وہاں ایک مسجد تھی جو جناتوں کی مسجد مشہور تھی، وہاں لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے، میں اسی مسجد میں جاتا تھا اور مناجات پڑھ کر خوب روتا تھا۔ یہ بالغ ہونے سے پہلے کے حالات تھے۔ بچپن ہی سے آسمان اور زمین دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا کہ یا اللہ! آپ نے کیسا آسمان بنایا،کیسی زمین بنائی۔ ان حالات سے میں سمجھ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بچپن ہی سے کھینچ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ میری باتوں اور میری تقریروں میں جذب کا اثر ہوجاتا ہے۔ ابھی تک سمندر کو دیکھتا ہوں تو حیرت میں پڑجاتا ہوں کہ اللہ اکبر! آپ نے اتنا پانی پیدا کیا، سمندر دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی پہچان بڑھتی ہے۔ یہ سب باتیں جذب کی علامت ہیں مگر ان پر بالکلیہ یقین بھی نہیں کرنا چاہیے، اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ یااللہ! اپنی رحمت سے اپنے راستہ سے نہ ہٹنے دیجیے۔عشقِ حقیقی اور مجازی کا فرق ارشاد فرمایا کہاللہ تعالیٰ کے سامنے تذلل اور پستی اختیار کرو اور سجدے میں گرجاؤ تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور دنیوی معشوقوں کی خوشامد کرو، ان کے پیر پر گرجاؤ تو ناراض ہوتے ہیں کہ تم میرا پاؤں کیوں چومتے ہو مثلاً کوئی کسی اَمرد