پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
بعض ارشادات برمکان مفتی حسین بھیات صاحب (لینیشیا) مثنوی کے دو اشعار کی تشریح حضرت والانے مولانا رومی کایہ شعر پڑھا ؎ اولیاء را در دروں ہا نغمہ ہاست طالباں را زاں حیاتِ بے بہاست اور فرمایا کہ اولیاء اللہ کے سینوں میں کچھ نغمات ہیں، طبلہ قوالی وغیرہ نہیں، حلال اور جائز نغمے، اللہ کی محبت کے درد میں ڈوبے ہوئے نغمے جن سے اللہ کے طالبوں کو حیاتِ بے بہا ملتی ہے چاہے اولیاء اللہ خاموش رہیں، وہ کچھ نہ بولیں لیکن ان کے دل میں بہت سے حلال نغمے چُھپے ہوئے ہیں جو الفاظ کے بھی محتاج نہیں، جن سے مردہ دلوں کو زندگی ملتی ہے ؎ خامش اندو نعرۂ تکرارِ شاں می رود تا یارو تختِ یار شاں یعنی اولیاء اللہ خاموش ہیں لیکن اندر اندر عشق کے نعرے لگ رہے ہیں۔ اہل اللہ کے سینوں میں اللہ کی محبت کے ایسے نالہائے درد ہیں جو عرشِ اعظم سے گزر کر صاحبِ عرشِ اعظم تک پہنچتے ہیں۔ناقلِ ملفوظات اور عاملِ ملفوظات کا فرق ارشاد فرمایاکہان اشعار کو یاد کرلو لیکن یہ سمجھو کہ اشعار تو یاد کرلیے مگر حقیقت سے ہم ابھی ناشناس ہیں جیسے میر صاحب سے کوئی کہے کہ شادی میں یہ مزہ آتا ہے تو شادی ان کی ہوئی نہیں۔ یہ شادی کی لُغت سے تو واقف ہیں مگر حقیقت کی لذت سے ناواقف ہیں۔ اسی طرح جن کو اللہ کا قُرب حاصل نہیں وہ یہی سمجھے کہ ہم صرف اللہ والوں کی باتیں نقل کرتے ہیں لیکن ان کے باطن کو جو مزہ حاصل ہے اس کی ہمیں خبر نہیں، اللہ ہمیں ان کا باطن بھی عطا فرمائے جو اللہ کے قُرب کی دولت سے