پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہوگئے۔ سراپا دردِ محبت تھے۔ پھر اس کے بعد سترہ سال دن رات مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہا اور ان کے بعد حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کے دریا سے استفادہ کیا۔ تین دریاؤں کا پانی میرے اندر ہے۔ ایک دریا کے پاٹ میں جب دوسرا دریا مل جاتا ہے تو پاٹ بڑا ہوجاتا ہے، پھر تیسرا دریا مل جاتا ہے پاٹ اور بڑا ہوجاتا ہے۔ اس لیے میرے پاٹ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیے۔ میرا پاٹ تین بزرگوں کی تربینی ہے۔اللہ کی محبت زبان کی محتاج نہیں برطانیہ کے انگریز نو مسلم جو اردو نہیں سمجھتے اور دارالعلوم آزاد ول میں طالبِ علم ہیں مجلس میں موجود تھے اور اکثر موجود رہتے ہیں اور حضرتِ والا کی مجلس میں بہت لطف محسوس کرتے ہیں ان کے لیے فرمایا کہ یہ لندن کے ہیں، اردو زبان نہیں سمجھتے لیکن ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ دین ایسا ہے کہ اس دین کے خادموں کو اللہ تعالیٰ سارے عالم میں محبوب کردیتا ہے۔ دیکھتے رہتے ہیں مزہ پاتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ معلوم ہوا کہ مزہ پانے کے لیے سمجھنا ضروری نہیں، بے سمجھے بھی مزہ ملتا ہے کیوں کہ زبانیں مختلف ہیں لیکن اللہ کی محبت زبان کی محتاج نہیں، یہ دل میں منتقل ہوتی ہے۔مجلس بعد عشاء ۸ بجے شب بیرون مسجد دارالعلوم آزاد ول آج دارالعلوم میں اس سفر کی آخری مجلس تھی۔ مولانا عبدالحمید صاحب کی درخواست پر حضرتِ والا آج بھی مجلس کے لیے دارالعلوم تشریف لے گئے۔ آج مجمع اور بھی زیادہ تھا۔ حضرتِ والا کے حکم پر مولانا رفیق ہتھورانی صاحب نے حضرتِ والا کے یہ اشعار پڑھے جن کا مطلع ہے ؎ جس کے دل میں نہیں ہے ترا درد و غم ہو کے انسان نہیں جانور سے وہ کم درمیان میں حضرتِ والا نے جو ارشادات فرمائے وہ یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔