پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ارشاد فرمایا کہ ’’غم کے مارے‘‘کے معنیٰ کیا ہیں؟یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کے غم کا مارا۔ اللہ والوں کو غم کہاں ہوتا ہے؟ ان کے غم بھی خوشی بن کر ان کے دل میں داخل ہوتے ہیں۔ معدہ میں تو روٹی جاتی ہے اور اہل اللہ کے دل میں غم بھی خوشی بن جاتے ہیں۔ غم سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی محبت کا غم اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے غم کے معنیٰ یہ ہیں کہ گناہ چھوڑنے سے جو دل کو غم پہنچتا ہے اللہ والا اس کو خوشی خوشی برداشت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو ناراض نہیں کرتا، اپنے نفس کی حرام خوشیوں کو کچل دیتا ہے اور اللہ کو راضی رکھتا ہے۔ اللہ والوں کو بس یہی خوف رہتا ہے کہ ان سے کوئی غلطی ایسی نہ ہوجائے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائیں۔ ان کو کوئی اور غم نہیں ہے۔ اللہ والوں کا غم صرف یہی ہے کہ ہم سے کوئی حرکت، کوئی فعل، کوئی بات ایسی نہ ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو اور اللہ تعالیٰ ان سے ناخوش ہوجائیں۔ غم سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چھوڑنے میں اگر جان بھی چلی جائے تو اس کو گوارا کرلے مگر گناہ کرکے اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرے۔ یہ ہیں غم کے معنیٰ اور غم کے مارے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ نافرمانیاں اور گناہ چپک گئے ہوں، چھوٹتے نہ ہوں، عادت پرانی ہوگئی ہو، گناہوں کا ایسا چسکا لگا ہوا ہو کہ گناہوں کے بغیر اس کا دل بے کیف ہوجاتا ہو وہ گناہ چھوڑ دے اور گناہ چھوڑنے کا غم اٹھالے تو وہ بھی غم کا مارا ہوگا۔ بس غم کے مارے کا یہی مفہوم ہے کہ ہر تکلیف اُٹھالو، دل کو توڑ دو لیکن اللہ کے قانون کو مت توڑو، اللہ کو راضی کرنے میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کو برداشت کرلو۔ گناہ چھوڑنے کے غم کی تکلیف دوزخ کی آگ کی تکلیف سے کم ہے۔ اللہ پناہ میں رکھے کہ کہاں دوزخ کی تکلیف اور کہاں اس غم کی معمولی سی تکلیف بلکہ اللہ کے راستے کے غم میں بھی ایسا مزہ، ایسا کیف ہے کہ بس کیا کہنا! بے عقلوں اور گدھوں کو اس کی خبر نہیں کہ گناہ چھوڑنے میں کیا کیف اور مزہ ہے۔ اس کی لذت اللہ والوں سے پوچھو اور اللہ والوں کے غلاموں سے پوچھو۔حدیث مَنْ عَشَقَ فکَتَمَ کی تشریح اور اگر کوئی ایسا رومانٹک مزاج ہے کہ اس کو کسی کا عشق لگ گیا۔ التشرف فی