پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
مجلس بَر مکان جناب یوسف ڈیسائی صاحب، اسٹینگر مورخہ۲۴؍ربیع الاول ۱۴۲۵ ھ مطابق ۱۴؍مئی ۲۰۰۴ ء بروز جمعہکُتّوں کے خادم ارشاد فرمایا کہجب میں امریکا گیا تھا تو دیکھا کہ ایک انگریز کتے کو کار کی فرنٹ سیٹ پر بٹھائے ہوئے تھا جس طرح ہم معزز مہمان کو بٹھاتے ہیں اور ایک ٹافی لمبی سی پہلے اپنے منہ میں رکھی پھر کتے کو دی، پھر اپنے منہ میں رکھی پھر اس کو دی، کتوں کی برادری ہے جو خود کھاتے وہی ان کو کھلاتے ہیں بلکہ کتوں کو اپنی برادری سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ کتوں کے لیے بینک بیلنس چھوڑ کر مرتے ہیں اور اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں کرتے کیوں کہ انہیں یقین نہیں کہ یہ ہماری اولاد ہے، عورت کیوں کہ ان کے یہاں دولتِ مشترکہ ہے اس لیے اولاد بھی سمجھتی ہے کہ پتا نہیں کہ کون میرا باپ ہے، اس لیے وہ بھی اپنے ماں باپ سے محبت نہیں کرتے۔ انگلینڈ میں دیکھا کہ صبح کو کتوں کو ٹہلانے کے لیے پارکوں میں لے جاتے ہیں۔ کتا جب ہگتا ہے تو اپنے ہاتھ سے اس کا گو اُٹھا کر پھینکتے ہیں۔ اللہ کو چھوڑا تو کتوں کی خدمت نصیب ہوئی، جو قوم انسانوں کے بجائے کتوں سے محبت رکھتی ہے وہ انسانوں کی خدمت نہیں کرسکتی۔مجرمانہ خوشی ارشاد فرمایا کہاچانک نظر سے بھی پناہ مانگو کیوں کہ نفس تو خوش ہوجاتا ہے۔ اس حرام خوشی سے بھی معافی مانگو کیوں کہ حرام خوشیاں موقعِ عذاب پر نازل ہیں۔ جس قوم پر عذاب نازل ہوا۔اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے فرمایا یَسْتَبْشِرُوْنَ وہ لوگ خوشیاں منارہے تھے۔ معلوم ہوا کہ گناہوں سے خوشی محسوس کرنا مُعَذب قوم کی علامت ہے۔ امردوں کو دیکھ کر مست ہوجانا یہ استبشار مجرمانہ ہے یعنی یہ مجرمانہ خوشی ہے۔ معصیت سے استبشار مجرم قوم کی علامت ہے۔ قومِ لوط علیہ السلام پر