پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
لذتِ غم کیا ہے ؟ پھر مولانا رفیق ہتھورانی صاحب نے حضرتِ والا کے دوسرے اشعار پڑھے اور جب یہ شعر پڑھا ؎ ساری دنیا کے مزے فانی ملے غیر فانی مجھ کو تیرا غم ملا تو فرمایا کہ غم سے مراد کوئی مصیبت نہیں ہے، الحمدللہ! میں ہمیشہ سے آرام سے ہوں، غم سے مراد اللہ کے راستے کا غم، حسینوں سے نظر بچانے کا غم، اللہ کو ناراض کرنے والی باتوں سے بچنے کا غم، یہ وہ غم ہے جس کا مزہ غیر فانی ہے ورنہ اللہ کے راستے میں غم کہاں خوشی ہی خوشی ہے، صرف گناہ چھوڑنے کا غم ہوتا ہے اور وہ بھی ذرا سی دیر کا ہوتا ہے۔ بس جو یہ ذرا سی دیر کا غم اُٹھالیتا ہے اس کے دل کو اللہ وہ مٹھاس، وہ حلاوت عطا فرماتا ہے۔ جس کے سامنے دنیا کی کوئی لذت نہیں آسکتی۔ اس لیے کیسا ہی حسین ہو اس سے نظر بچا کر غم اُٹھاؤ، جب ہوائی جہاز پر سفر کرو تو ایئر ہوسٹس کو نہ دیکھو، نہ اس کی پنڈلی دیکھو جو کھلی ہوتی ہے، اگر پنڈلی دیکھوگے تو تمہارا پنڈنہیں چھوڑے گی، بس دل کو مار لو، صبر کرو اسی صبر سے اللہ ملتا ہے۔اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ اس لیے گناہ چھوڑنے کا جو غم اُٹھالے گا وہ خدا کو پالے گا اور جو گناہ چھوڑنے کا غم نہیں اُٹھائے گا وہ کبھی خدا کو نہیں پائے گا چاہے کتنی ہی تہجد پڑھ لے، کتنی ہی عبادت کرلے، کتنی ہی تلاوت کرلے، کتنا ہی شمسِ بازغہ اور صدرا پڑھ لے اس کو خدا نہیں مل سکتا۔ خدا اس کو ملتاہے جو گناہ چھوڑنے کا غم اُٹھاتا ہے اور گناہ چھوڑنے میں سب سے زیادہ غم نظر بچانے میں ہے، اس غم میں سب مبتلا ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ، کوئی پیاری شکل سامنے آجائے، اس وقت نظر کو بچالو، دل پر غم جھیلو، خدا کو پاجاؤ گے اور اگر دیکھ لو گے تو لعنت میں آجاؤ گے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎اور لعنت رحمت کی ضد ہے، رحمت اور لعنت جمع نہیں ہوسکتی، اجتماعِ ضدین محال ہے اور اللہ تعالیٰ ------------------------------