پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
شیخِ ثانی کے حقوق کے متعلق اہم تنبیہ ارشاد فرمایا کہجس کے کئی شیخ ہوں یعنی ایک شیخ کے انتقال کے بعد دوسرے شیخ سے تعلق کیا پھر دوسرے شیخ کے انتقال کے بعد تیسرے شیخ سے تعلق کیا ہو اس کے لیے نصیحت ہے کہ جو شیخ گزر گئے۔ ان کا فیض ان کے کٹ آؤٹ کے ختم ہونے سے ختم ہوگیا۔ اب جو زندہ شیخ ہے اسی کے کٹ آؤٹ سے فیض آئے گا۔ یہ یقین رکھو کہ پہلے دونوں مشایخ جو رحمۃ اللہ علیہ ہوگئے ان کا فیوض بھی موجودہ شیخ کے کٹ آؤٹ سے آرہا ہے اور اپنے شیخ کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ میرے لیے ان سے بڑھ کر کوئی نافع نہیں ہے۔ دنیا اولیاء اللہ سے خالی نہیں ہے مگر میرا شیخ میرے لیے سب سے زیادہ مفید ہے اور شیخ کی پہچان یہ ہے کہ سلسلہ کے کسی شیخ سے اس کی نسبت ہو، اس سے خلافت پائی ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ موجودہ شیخ کا رنگ پہلے مشایخ جیسا ہو کیوں کہ ہر ولی کی شان میں تفرد ہوتا ہے، ہر ایک کا رنگ نسبت الگ ہوتا ہے مثلاً حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی شان اور تھی، حضرت مولانا پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی اور شان تھی اور حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی شان اور ہے۔ حضرت کا انتظام دیکھ کر حضرت پھولپوری نے مجھ سے خود فرمایا کہ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب بادشاہت بھی چلاسکتے ہیں، اگر امیر المؤمنین بنادیا جائے تو پوری مملکت کا انتظام سنبھال سکتے ہیں یہ اس وقت فرمایا جب حضرت ہردوئی نے حضرت پھولپوری کو اپنے مدارس کا انتظام دکھایا کہ میں اساتذہ کا قد بھی ناپ کر رکھتا ہوں کہ کتنے فٹ کتنے انچ ہے، فلاں کے چہرہ پر ایسا نشان ہے، فلاں کی بائیں آنکھ کی طرف تل ہے، اساتذہ کا پورا حلیہ لکھا ہوا حضرت کو دکھایا۔ حضرت نے فرمایا کہ اللہ اکبر! ان پر کیا شانِ انتظام غالب ہے۔ پورے ہندوستان میں حضرت کے مدرسوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ غالباً تین سو سے اوپر مدرسے ہیں اور سب مدرسوں کے منتظمِ اعلیٰ حضرت ہیں۔ ایسے ہی حضرت کا تعلق مع اللہ بھی عظیم الشان ہے۔ ایک واقعہ ہی سے سمجھ لو