پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
میں حضرتِ والا کے ساتھ احقر، حافظ ضیاء الرحمٰن صاحب اور مطہر محمود صاحب جوہانسبرگ ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔اللہ کی محبت پھیلانے کی نصیحت راستے میں مولانا عبدالحمید صاحب سے بہت رقّت اور درد سے فرمایا کہ اپنے لڑکے کو اہتمام پورا سکھادیجیے اور آپ فارغ ہوجائیے سارے عالم میں اللہ کی محبت پھیلانے کے لیے۔ اللہ کی محبت بھی تو دین ہے بلکہ دین کی روح یہ ہے کہ اللہ کی محبت پیدا ہوجائے، اہتمام کا کام بیٹے کو سکھادیجیے جیسے میرا بچہ سب کام کرلیتا ہے، میں فارغ ہوں، جہاں بھی کوئی لے جائے وہاں چلا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مدرسہ کی کوئی فکر نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے فارغ فرمادیا کہ جہاں بھی جانا چاہوں جاسکتا ہوں اور تین آدمی میرے ساتھ کردیے: میر صاحب، حافظ ضیاء الرحمٰن اور مطہر محمود۔ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے میری محبت ڈال دی کہ تینوں ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہیں۔ میر صاحب علمی کام کرتے ہیں اور یہ دونوں میری خدمت میں رہتے ہیں۔ میر صاحب میری خدماتِ بدنیہ بھی کرتے تھے اور اب بھی خدمت کرنے کے لیے تیار تھے، پے خانہ بھی صاف کرتے تھے مگر سید سے پے خانہ اُٹھوانا مجھے ٹھیک نہیں لگا اس لیے ان کو منع کردیا۔ میرے منع کرنے سے مجبوراً رُک گئے ورنہ ان کی دلی تمنا یہی تھی کہ یہ میری خدمت کریں۔ اللہ تعالیٰ نے محمود کو لاہور سے اور ضیاء کو امریکا سے بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے توفیق دی، انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم آپ کی خدمت کے لیے رہیں گے۔ اللہ کا شکر ہے تنخواہ دینے پر بھی کوئی ایسا نہیں ملتا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ جو کچھ توفیق نیک کام کی ہو اللہ کی عطا ہے۔ لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ ہیں محمود، ضیاء الرحمٰن اور میر صاحب یہ اللہ کی عطا ہے، حسنہ ہے، من اللہ ہے، اللہ کی توفیق سے ہے، آپ لوگ اس کو اپنا کمال نہ سمجھیے۔ احقر نے عرض کیا کہ یہ تو حضرت کا احسان ہے جو مجھ جیسے نالائق کو قبول فرمالیا،یہ اللہ کا کرم ہے جو حضرت تک باریابی نصیب ہوئی ورنہ ہم جیسے لاکھوں