پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
سے گناہ ہوتا ہی نہیں لیکن ہم گناہ گار ہیں ہمارا کام معافی مانگنے ہی سے چلے گا۔منکرینِ خدا کا علاج سمندر کے کنارے پہنچ کر حضرتِ والا حافظ ضیاء الرحمٰن صاحب کے سہارے کار سے اُترے اور ایک پلنگ نما کرسی پر تشریف فرما ہوئے جس کا انتظام حضرتِ والا کی راحت کے لیے جناب یوسف ڈیسائی صاحب نے کیا تھا۔ خدام کرسی اُٹھا کر سمندر کے قریب لے گئے۔ سمندر کو دیکھ کر حضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ اتنا پانی پیدا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے، جہاں تک دیکھو وہاں تک پانی ہی پانی ہے، جن لوگوں نے خدائی کا دعویٰ کیا جیسے فرعون، نمرود، ہامان، شداد یا جو لوگ منکرینِ خدا ہیں یعنی جو اللہ کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ کوئی چیز نہیں (نعوذ باللہ) ان کو بیچ سمندر میں ڈال دو، جب ڈوبنے لگیں تو پوچھو کہ خدا ہے کہ نہیں؟ تو کہیں گے اومائی گاڈ (O! My God)بلکہ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں، منہ سے خود بخود نکلے گا۔ جب مصیبت میں گھریں گے اور پانی ان کو دبوچے گا تو خدا یاد آجائے گا۔ حالاں کہ ابھی سمندر کے کنارے کہہ رہے تھے کہ ہم خدا کو نہیں مانتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کو ماننا ہماری فطرت میں داخل ہے۔ جو لوگ منکر ہیں وہ اپنی فطرت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں لیکن مصیبت میں خدا ہی یاد آتا ہے۔ ایسے میں اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اللہ کو پکارتے ہیں۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا کہ جب تمہاری کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو تم کس کو پکارتے ہو۔ ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡ ۙ دَعَوُا اللہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ ؎ وہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں لیے لیے پھرتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ------------------------------