پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کہ لو سو رین کی ایک گھڑی بھی لے لو تو پہلا مزدور یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ گھڑی دینا عدل کے خلاف ہے۔ عدل کے خلاف تب ہوتا کہ جو مزدوری طے کی گئی تھی وہ نہ دی جاتی، پچاس رین تو دونوں کو دیے گئے لیکن ایک مزدور کو جو انعام دیا یہ فضل ہے جو عدل کے خلاف نہیں۔ اسی طرح کافر اور مومن دونوں کو عقل برابر دی کہ عقل سے وہ اللہ پر ایمان لاسکتے ہیں یہ عدل ہے لیکن جس کو مسلمان کے گھر پیدا کیا گیا اور ایمان لانا اس کے لیے آسان کردیا یہ فضل ہے جو عدل کے خلاف نہیں۔ عدل کے خلاف جب ہوتا کہ دونوں کو عقل برابر نہ دی جاتی۔ جس کو مومن کے گھر میں پیدا کیا وہ فضل کے تحت ہیں اور جس کو کافر گھر میں پیدا کیا وہ عدل کے تحت ہیں، ان کے پاس اتنی عقل ہے کہ جس سے وہ اللہ پر ایمان لاسکتے ہیں لیکن باجود استعداد کے ایمان نہیں لاتے اسی لیے مجرم ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ارشاد فرمایا کہگناہ سے ایسے ڈرو جیسے سانپ سے ڈرتے ہو، گناہ سے بچنے میں جان کی بازی لگادو لیکن اگر کبھی مغلوب ہوجاؤ تو اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہ ہو، گناہ سے منہ کالا کرنے والے اللہ سے توبہ کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں وہ گناہوں کو معاف بھی کردیں گے اور منہ کو اجالا بھی کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہیں۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتنے بڑے قاتل اور کتنے بڑے مجرم تھے۔ اللہ نے ان کو ایمان عطا فرمادیا اور ان سے ایک بہت بڑا کام لے لیا۔ گناہ گار بندہ اگر سچی توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسے کام لے لیتے ہیں جس سے اس کی آبرو بحال ہوجاتی ہے۔ چناں چہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے اتنا بڑا کام لیا کہ مسیلمہ کذاب کو ان کے ہاتھوں سے قتل کرایا۔ اس کے قتل کے بعد فرمایا: قَتَلْتُ فِیْ جَاھِلِیَّتِیْ خَیْرَ النَّاسِ وَقَتَلْتُ فِیْ اِسْلَامِیْ شَرَّالنَّاسِ فَتِلْکَ بِتِلْکَ؎ میں نے اپنی جاہلیت کے ایام میںخَیْرُ النَّاسیعنی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کیا اور میں نے اسلام کی حالت میں شَرُّالنَّاسیعنی مسیلمہ کذاب کو قتل کیا ؎ ------------------------------