پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
میں بھی مزہ ہے کہ اے ایمان والو تقویٰ اختیار کرلو، گناہ گار زندگی کو چھوڑ دو، گناہ اچھی چیز نہیں ہے، بین الاقوامی خراب چیز ہے، ہر آدمی گناہوں کو بُرا سمجھتا ہے چاہے کرتا ہو۔ تو اللہ تعالیٰ مستغنی مطلق اور مکمل بے نیاز ہونے کے باوجود اپنے سراپا محتاج اور ناپاک بندوں سے فرمارہے ہیں کہ میرے دوست بن جاؤ اور میرے دوست کون ہیں؟اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاجو ایمان لائے، اس میں ماضی کا صیغہ استعمال کیا کیوں کہ ایمان ایک ہی بار لانا ہوتا ہے۔ تو ولایت کی پہلی شرط ایمان ہے اور دوسری شرط ہے وَکَانُوْ یَتَّقُوْنَیہ ماضی استمراری ہے تو معنیٰ یہ ہوئے کہ تقویٰ میں استمرار مطلوب ہے لیکن تقویٰ ٹوٹ سکتا ہے، لہٰذا اس کو بار بار جوڑنا پڑے گا۔ جیسے اگر وضو ٹوٹ جاتا ہے تو دوبارہ وضو کرکے پھر باوضو ہوتے ہیں ایسے ہی اگر تقویٰ ٹوٹ جائے، بشریت غالب ہوجائے تو توبہ کرکے پھر متقی ہوجاؤ۔ اللہ سے توبہ، استغفار کرکے تجدیدِ عہد کرو کہ یا اللہ! جان دے دوں گا مگر آپ کو ناراض نہیں کروں گا۔ناپاک بندوں کو دوستی کی پیش کش اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ بندوں کی طرف دوستی کا ہاتھ خود بڑھایا۔ بندوں کے تو خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ منی اور حیض سے پیدا کرکے وہ پاک ذات ہم کو اپنا دوست بنائے گی۔ ایک بادشاہ بھنگی اور چمار تو کیا ایک عام آدمی کو بھی اپنا دوست بنانے کے لیے تیار نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے ناپاک بندوں کو فرمارہے ہیں یٰۤاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْااللہَاے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو تم میرے دوست بن جاؤ گے کیوں کہ متقی بندے ہی میرے اولیاء ہیں، صرف تقویٰ کی ضرورت ہے۔ ایمان تو تمہارے پاس ہے ہی، صرف تقویٰ کا معاملہ ہے جس پر دوستی کی بنیاد ہے۔ بس اگر تقویٰ اختیار کرلو تو اللہ کے دوست بن جاؤ گے۔ اللہ کا دوست بننا کیا معمولی نعمت ہے؟ کتنی بڑی ذات پاک، کتنا بڑا مالک اپنا دوست بنارہا ہے۔ قیامت کے دن معلوم ہوگا کہ اولیاء اللہ کی کیا قیمت ہے۔ دنیا کا بازار اولیاء اللہ کی قیمت کی جگہ نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے یہ خود ظاہر فرمایا کہ تم میرے دوست بن جاؤ۔ بندوں کی طرف سے