پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
مجلس بعد عصر بَرمکان سلیمان صاحب اتفاق و اختلاف کے متعلق علمِ عظیم ارشاد فرمایا کہمیں غور کرتا رہا کہ بعض صالحین میں بھی آپس میں اختلاف رہتا ہے، ایک دوسرے سے مزاج نہیں ملتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے دو خلیفہ تھے اور دونوں میں بول چال بند تھی، دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے نہ ملتے جلتے تھے اور دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے، کسی نے لکھا کہ حضرت! دونوں آپ کے خلیفہ ہیں، آپ دونوں میں میل ملاپ کیوں نہیں کرادیتے، حکم دے دیجیے کہ دونوں گلے مل لیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کا اختلاف ان کے اتفاق سے افضل ہے، اگر ملاؤں گاتو اور لڑیں گے اس لیے دور دور رہیں تو اچھا ہے۔ ایک کا نام ماسٹر ثامن صاحب تھا اور دوسرے کا نام ماسٹر کرم الٰہی تھا۔ دونوں بہت موٹے تھے لکھیم پور کے رہنے والے تھے جہاں جنگل بہت ہیں۔ شکار کرنے کے لیے خواجہ صاحب ایک ہاتھی پر بیٹھے اور یہ دونوں جن میں بول چال بند تھی لیکن جب کہیں مل جاتے تھے تو سلام کرلیتے تھے،یہ دونوں دوسرے ہاتھی پر بیٹھے۔ اتفاق سے کیچڑ زیادہ تھی تو ہاتھی چلتے چلتے رُک جاتا جیسے کیچڑ میں دھنس رہا ہو۔ خواجہ صاحب نے جو یہ منظر دیکھا تو اپنے ہاتھی پر سے زور سے فرمایا ؎ ایک ہاتھی پر ہیں دو ہاتھی سوار کیوں نہ دھنس دھنس جائے ہاتھی بار بار معلوم ہوا کہ مزاج نہیں ملتا تو نہ ملے،نہ بات چیت کرے لیکن ایک دوسرے کے درپے آزارنہرہو یعنی دوسرے کو تکلیف پہنچانے کی فکر میں نہ رہے۔ مزاج نہ ملنا تو مجبوری ہے، اختلافِ طبیعت ہے لیکن درپے آزار ہونا، دوسرے کو ایذا پہنچانے کی فکر میں رہنا حرام ہے۔ قرآن شریف کی آیت ہے: