پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ماؤں کے پیٹ میں باپ کی منی اور ماں کا حیض تھے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡپستم اپنے نفس کو مزکّٰی مت سمجھو۔ ایک آیت میں اللہ تعالیٰ تزکیہ کا حکم دے رہے ہیں قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ؎وہ فلاح پاگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا اور دوسری آیت میں فرمارہے ہیںفَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡاپنے نفس کو طرف تزکیہ کی نسبت نہ کرو، اپنے نفس کو پاکیزہ مت سمجھو ؎ پاک کردن فرض پاک گفتن حرام نفس کو پاک کرنا فرض ہے اپنے کو پاک کہنا یعنی پاک سمجھنا حرام ہے۔فَلَاتُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡمیں ایک بلاغت ہے کہ نسبت الی الماخذ نہ کرو یعنی تزکیہ کا جو مادہ ہے اس کی طرف نسبت نہ کرو کہ میں پاک ہوگیا۔تقویٰ کی اہمیت اس لیے حافظ ہونا، عالم ہونا فرضِ کفایہ ہے، کسی بستی میں دو چار حافظ ہوجائیں، دو چار عالم ہوجائیں تو سب کا فرضِ کفایہ ادا ہوجائے گا مگر تزکیہ کرانا، اپنے نفس کو پاک کرنا، گناہوں سے بچنا یعنی تقویٰ فرضِ عین ہے، ہر مسلمان پر فرض ہے کہ متقی بنے، اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر فرض کیا کہ نافرمانی چھوڑ دو اور تقویٰ سے رہو۔ اگر گناہ نہیں چھوڑوگے تو اللہ سے محروم رہو گے۔ جو شخص گناہ نہیں چھوڑتا اور گناہوں کے حرام مزے کی عادت ہے وہ خدا کو کبھی نہیں پاسکتااِلَّا مَنْ تَابَمگر جو سچی توبہ کرے، دل سے توبہ کرے، تو اللہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ جو کبھی حسینوں کو نظر مارلیتا ہے اور توبہ نہیں کرتا وہ کبھی اللہ تک نہیں پہنچے گا۔ تقویٰ میں دوام مطلوب ہے، جو دائماً متقی ہے وہ ولی اللہ ہے اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَکےمعنیٰ یہ نہیں کہ کبھی فاسق بن جاؤ کبھی متقی ہوجاؤ بلکہ ہمیشہ اللہ کی فرماں برداری اور اطاعت کرو اور گناہوں سے بچو، لیکن جو لوگ کبھی کبھی پھسل جاتے ہیں اور گناہ کر بیٹھتے ہیں مگر پھر نادم ہو کر توبہ ------------------------------