پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
مولوی صاحب ڈر گئے اور جلدی سے اُسے کندھے سے پھینک دیا اور مارے ڈر کے تیرنا بھی بھول گئے اور پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے تو شیطان نے قہقہہ مارا اور کہا: مولانا صاحب! کہاں گیا تمہارا لاحول۔ میں نہ کہتا تھا کہ ایسا پٹخوں گا کہ سب بھول جاؤ گے۔بوڑھوں کو حسینوں سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے غرض جوان ہو یا بوڑھا حسینوں سے بچو بلکہ بوڑھے تو اور زیادہ بچیں کیوں کہ جب کار پرانی ہوجاتی ہے تو بریک بھی کمزور ہوجاتے ہیں اور بریک لگانے پر بھی ایک فٹ آگے بڑھ جاتی ہے، پھر رُکتی ہے، بُوڑھوں کی قوتِ ضبط بھی کمزور ہوجاتی ہے اس لیے ان کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے کیوں کہ جب داڑھی سفید ہوگئی تو سوائے دیکھنے، للچانے، دل کو تڑپانے اور کلپانے کے کچھ نہیں ملے گا۔ اگر وہ کہے بھی کہ بڑے میاں! کیوں للچارہے ہو، مجھ کو یوز(Use)کرلو تو شرمندہ ہوکر کہیں گے کہ کیا کریں اب دم ہی نہیں رہا، چوہا اتنا کمزور ہوگیا کہ اب بل میں نہیں جاسکتا۔ لیکن یاد رکھو کہ نفس کبھی بڈھا نہیں ہوتا۔ جتنی طاقت ہوگی اتنی بدمعاشی کرلے گا، اگر دیکھنے کی طاقت ہوگی تو دیکھ کر حرام مزہ اُڑالے گا اور دیکھنے کی طاقت بھی نہیں رہے گی توپرانے گناہوں کو یاد کرکے مزہ اینٹھ لے گا۔ نفس پر کبھی بھروسہ نہ کرو۔ میرا شعر ہے ؎ دھوکا نہ کھاؤ کسی ریشِ سفید سے ہے نفس نہاں ریشِ مُسوَّد لیے ہوئے اوپر سے چاہے داڑھی کتنی ہی سفید ہو لیکن نفس کالی داڑھی لیے ہوئے اندر چُھپا ہوا ہے۔ میں نے پچاس سال پہلے ہندوستان میں ایک بس پر اسّی سال کے بڈھے کو دیکھا جو اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا اور منہ بھی پھیلائے ہوئے تھا۔ کنڈیکٹر نے کہا کہ چاچا!ٹکٹ لے لو، چاچا سنتے ہی نہیں۔ پھر کہا چاچا!ٹکٹ لے لو۔ یہاں تک کہ کنڈیکٹر نے بڈھے کا کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا کہ ارے چاچا! کہاں دیکھ رہے ہو؟ ٹکٹ لے لو تب چاچا کو ہوش آیا۔