پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کہتا ہے کہ میں خوبصورتوں کو چاہتا ہوں لیکن ذرا آپ کی صورت تو دیکھیے اس حماقت کی کوئی حد ہے کہ بڈھا کھوسٹ ہے اور حسینوں کو چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ حسین بھی مجھے پسند کرتے ہیں، ذرا آپ کی صورت دیکھیے اور یہ گمان دیکھیے۔ لہٰذا ہر شخص اپنی جیب میں ایک آئینہ رکھے، جب کوئی حسین دیکھے تو آئینہ میں اپنی شکل دیکھو۔ اگر شکل اچھی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرو اور کہو کہ میرا حسن کسی نامحرم عورت یا امرد کے لیے جائز نہیں۔ حُسن کا شکریہ ہے کہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ کرے۔ اگر کسی نے کسی حسین کا تحفہ لے لیا اور کھابھی لیا تو اب کیا کرے؟ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ قے کردے لیکن قے کرنا واجب نہیں ہے، بس اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلے کہ یا اللہ! اب کسی حسین کا ہدیہ نہیں لوں گا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کے معافی مانگ لے اور اس حسین سے کسی سے کہلوادے کہ اب آیندہ ہدیہ نہ لانا، قبول نہیں کروں گا۔ اس سے کہلوادینا ضروری ہے ورنہ وہ سمجھے گی کہ ایک دفعہ لے لیا تو آیندہ بھی ضرور لیں گے جب کہ وہ افسر بھی ہو تو افسر کو تو ماتحت اور بھی خوش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہماری ترقی ہو تو کہہ دو کہ ہم خوش نہیں ہوئے ہم کو تکلیف پہنچی۔ ہمیں ہدیہ کی ضرورت نہیں، بغیر ہدیہ کے ہم ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کریں گے، جو بے اُصولی کرے گا اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کروں گا اور اگر بے اُصولی نہیں کروگے تو سب کے ساتھ انصاف کروں گا۔ جو ہدیہ پیش کرے گا اس کا بے اُصولی کرنے والوں میں شمار ہوگا۔ لہٰذا ہمیں کوئی ہدیہ دینے کی جرأت نہ کرے۔جب جان کے لالے پڑتے ہیں ارشاد فرمایا کہ جب مصیبت آتی ہے اور مرض شدید ہوجاتا ہے تو کوئی حسین یاد نہیں آتا۔ میر صاحب سے پوچھ لیجیے، جب ان کی انجیوگرافی ہورہی تھی تو کون حسین یاد آرہا تھا۔ اس وقت اللہ والوں سے دعا کراتا ہے کہ میری جان کی حفاظت کی دعا کیجیے۔ جب جان کے لالے پڑتے ہیں تو کوئی لالے یاد نہیں آتے، یہ شریف بندوں کا کام نہیں کہ جب مصیبت پڑے تب ہی اللہ کو یاد کرے۔ حدیثِ پاک میں ہے: