پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
تک سمندر ہی سمندر ہے۔ اتنا پانی کون پیدا کرسکتا ہے سوائے اللہ کے۔سمندر میں نمک پیدا کرنے کی حکمت سمندر کا ایک گھونٹ پانی پیو اور دیکھو کہ کتنا نمک ہے۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ مفتی بغداد روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ سمندر میں پچاس فی صد نمک اللہ تعالیٰ نے ڈالا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ تاکہ پانی میں تعفن اور انفیکشن نہ پیدا ہو۔اگر نمک نہ ہوتا تو پانی سٹر جاتا کیوں کہ وہ رُکا ہوا یعنی جامد ہے۔ دیکھو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ مفتی بغداد نے تفسیر میں لکھا ہے کہ سمندر میں پچاس فی صد نمک ہے، اتنا نمک کون پیدا کرسکتا ہے؟ ہے کسی کی طاقت جو اتنا نمک پیدا کردے؟ کیا نمک چوروں کی ہمت ہے کہ نمک پیدا کرسکیں؟ سمندر سے نمک چُرا کے بن گئے اُستاد! مگر مانیں گے نہیں کہ ہم نے نمک چُرایا ہے۔ چوری بھی اور سینہ زوری بھی۔ نمک چُراتے ہیں اور ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہم نے یوں نمک حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر میں دو وجہ سے نمک پیدا کیا ، تاکہ سمندر کی مخلوق زندہ رہے اور ساحلِ سمندر کے باشندے خیریت سے رہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نمک نہ ڈالتے تو سمندر کا پانی سڑ جاتا اور ساحلی علاقوں کے باشندے بھی زندہ نہ رہتے۔ ساحلی علاقے کی آبادی اسی نمک سے زندہ ہے۔ نمک نہ ہوتا تو مچھلیاں بھی ہلاک ہوجاتیں۔ پھر تین چوتھائی مخلوق غذا سے محروم ہوجاتی اور ڈربن اور اسٹینگر کے ساحلی علاقے بھی فنا ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر میں نمک اس لیے رکھا کہ سمندر کی مچھلیاں، سمندر کی مخلوق اور سمندر کے ساحلی علاقے کے لوگ زندہ رہیں۔ دو مخلوق کی زندگی منحصر ہے اللہ کے دیے ہوئے نمک پر ایک سمندر کے اندر کی مخلوق اور دوسرے سمندر کے کناروں کی مخلوق۔ اسی دوران شیخ الحدیث دیو بند حضرت مولانا عبدالحق صاحب دامت برکاتہم جو حضرتِ والا کے ساتھ کے پڑھے ہوئے ہیں ان کا زمبیا سے فون آیا،حضرتِ والا نے فرمایا کہ آپ یہاں کیسے آگئے؟ پھر فرمایا: مجھے بھی میرا اللہ اپنے کرم سے اس بیماری میں یہاں لے آیا اور یہ شعر پڑھا ؎