پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
علمی مزاح ارشاد فرمایا کہایک بات یاد آگئی۔ پاکستان کے ایک بہت بڑے عالم سے مکہ شریف میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں ذرا پیشاب کے لیے جاتا ہوں، میں نے کہا بُل: بُل۔ اس وقت کچھ نہیں سمجھے۔ جب پیشاب کرکے واپس آئے تو زور سے ہنستے ہوئے آئے۔ کہنے لگے کہ پیشاب خانے میں بُل بُل کے معنیٰ سمجھ میں آئے۔ میں نے غور کیا کہ یہ کیا لفظ بولا، تو سمجھ میں آیا کہ بَال یَبُولُ کا امر بُل ہے اور دو دفعہ بُل بُل کہنے سے مزہ بڑھ گیا جس سے سننے والا سمجھے گا کہ پرندہ کا نام لیا لیکن معنیٰ ہوئے کہ پیشاب کرلو، پیشاب کرلو۔بچپن ہی سے حضرتِ والا کا اہل اللہ سے تعلق ارشاد فرمایا کہ اللہ کی ایک نعمت کو بطورِ شکر کے تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرتا ہوں اور فخر اور جاہ سے پناہ چاہتا ہوں۔ جب میں بالغ ہوا تو حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ بحیات تھے، ان کی صحبت میں تین سال رہا۔ اس کے بعد حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوا تو ان کی صحبت میں سترہ سال رہا۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کی صحبت میں ابھی تک ہوں۔ پچاس پچاس دن ان کی صحبت میں رہا ہوں۔ اب بھی باقاعدہ خط و کتابت کرتا ہوں، ہر ہفتہ ایک خط بھیجتاہوں۔ یہاں آنے سے چھ سات دن پہلے ایک خط کراچی سے بھیجا تھااور یہاں آتے ہی دوسرا خط چلا گیا اور خط میں کیا مضمون ہوتا ہے؟ کہ میں آپ کی دعاؤں کا اور توجہ کا سراپا محتاج ہوں،تاکہ شیخ یہ نہ سمجھیں کہ اب اختر کو لوگ بہت ماننے لگے تو مجھ کو بھول گیا۔ یاد رکھو شیخ کٹ آؤٹ ہے، اگر شیخ اَپنی توجہ کا کٹ آؤٹ ہٹالے تو مرید چاہے کیسا ہی ہو گیٹ آؤٹ ہوجائے گا۔ اس لیے شیخ کا احسان کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ مجھ کو تین دریاؤں کا پانی ملا ہے: دریائے مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ،