پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
لیے تو مسلمان پیدا ہوا ہے۔ اگر گناہ کرنے کی طاقت ہوتی اور گناہ سے بچنے کی طاقت نہ ہوتی تو ظلم ہوجاتا، اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہیں، تو جس نے تقویٰ فرض کیا اسی نے تقویٰ سے رہنے کی طاقت بھی دی ہے۔ وہ بے غیرت اور کمینہ آدمی ہے جو طاقتِ ہمت کو استعمال نہیں کرتا۔ نفس جو کہتا ہے اُسے مان لیتا ہے۔ ہمارے حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قصہ سنایا تھا کہ ایک بزرگ جنگل میں تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اے نفس! نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ تیرا کہنا میں کیوں مانوں۔ ایک مولوی صاحب جارہے تھے، انہوں نے کہا کہ یہ تو خدا کا انکار کررہا ہے۔ کُفر کا فتویٰ لگادیا۔ اس اللہ والے نے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ تو پوچھو کہ میں کس سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ میں اپنے نفس سے کہہ رہا ہوں کہ نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ میں تیرا کہنا کیوں مانوں۔ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ سر سے لے کر پاؤں تک سارے اعضاء اللہ کے بندے ہیں۔ میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ نافرمانی سے منہ کالا کرکے جہنم میں جانا نہیں چاہتا، میں جنت میں جانا چاہتا ہوں۔حاصلِ زندگی ارشاد فرمایا کہمیرا شعر ہے ؎ میری زندگی کا حاصل میری زیست کا سہارا ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا جب میں پاکستان سے پُھولپور گیا تو وہاں میرا یہ شعر ایک شاعر نے پڑھ کر سنایا تو پھولپور والوں نے کہا کہ جس نے تمہاری جوانی کا زمانہ نہیں دیکھا وہ اس شعر کا مطلب نہیں سمجھ سکتا، تم نے تو اس پر عمل کرکے دکھلادیا کہ ساری زندگی حضرت پھولپوری کی خدمت میں گزار دی، اس شعر کا مطلب وہی سمجھ سکتا ہے جس نے تم کو شیخ پر فدا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جینے اور مرنے کے کیا معنیٰ ہیں۔ اللہ کے لیے جینا یہ ہے کہ اللہ کی فرماں برداری میں جیو، اللہ کے کامل فرماں بردار بن کر زندہ رہو۔ جب تک سانس رہے، جب تک موت نہ آئے، نماز روزہ کرتے رہو اور اللہ پر مرنا کیا ہے؟ اللہ کی نافرمانی چھوڑنا، بس