پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اور دوسرے صاحب کی بیوی ذرا کالی تھی، اس سے چھ بچے ہوئے تھے۔اس کو رات کو بارہ بجے طلاق دے دی کہ تمہاری شکل اچھی نہیں ہے، اب تمہارے ساتھ میرا گزارہ نہیں ہوسکتا۔ وہ بچوں کو لے کر رات کے بارہ بجے گھر سے نکل گئی اور آسمان کی طرف دیکھا اور بزبانِ حال یہ شعر پڑھا ؎ ہم بتاتے کسے اپنی مجبوریاں رہ گئے جانب آسمان دیکھ کر وہ تو چلی گئی اور اس کے بعد ایک دوسری خوبصورت سے شادی کرکے لائے، بڑے خوش تھے لیکن کچھ ہی دن کے بعد فالج ہوگیا، بیوی کے بھی قابل نہیں رہے،چھ مہینہ چارپائی پر پڑے پڑے ہگتے رہے تو جو نئی بیوی لائے تھے وہ لات مار کر بھاگ گئی، نئی بھی گئی اور پرانی بھی گئی، کوئی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں تھا یہاں تک کہ پڑے پڑے مرگئے۔ اس لیے دنیا میں کیا رکھا ہے پہلے زمانے میں خون نکلوانا پڑتا تھا تب صحابہ رضی اللہ عنہم کو اجازت ہوئی اور اجازت بھی مطلق نہیں دی بلکہ عدل کے ساتھ مقید فرمادیا کہ اگر تم عدل کرسکو تب دوسری شادی کرو۔ جیسے تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ترازو رکھی ہوئی تھی جس سے تول کر دونوں گھروں میں آدھا آدھا تقسیم کرتے تھے۔ مثلا آدھا خربوزہ ایک گھر میں آدھا خربوزہ دوسرے گھر میں۔ کسی نے کہا کہ آپ نے دو شادی کرکے مریدوں کے لیے دو شادیاں کرنے کا راستہ کھول دیا۔ فرمایا کہ نہیں! راستہ بند کردیا کیوں کہ عدل کرنے میں جتنی مشقت و مصیبت اُٹھارہا ہوں کسی کی ہمت نہیں ہوسکتی۔ مشکل دیکھ کر سبق مل جائے گا کہ دوسری شادی کرنا آسان نہیں ہے۔شادی مقصدِ حیات نہیں اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لیے پیدا کیا ہے کہ تم جماع کرتے رہو وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیُجَامِعُوْنَتو نہیں فرمایا لِیَعۡبُدُوۡن فرمایا۔ عبادت کے لیے ہم کو پیدا کیا ہے تو عبادت میں لگو۔ بیوی کے ساتھ جماع کرنا مقصدِ حیات نہیں ہے، اس کو ضرورت کے درجہ میں رکھو۔ بیوی کو مقصدِ حیات نہ بناؤ