پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
قوت اور مہارت بے کار ہوگئی۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کسی کام میں ننانوے فی صد امن ہو لیکن ایک فیصد خطرہ ہو تو ایک فی صد کا خطرہ مول مَت لو۔ ممکن ہے کہ وہی گھڑی مصیبت کی ہو اور ایک فی صد خطرہ سامنے آجائے۔علاجِ تکبر اور تعلیمِ فنائیت ارشاد فرمایا کہکسی منکرِ خدا سائنس دان کو جو سائنس پر ناز کرکے خدا کا انکار کرتا ہے سمندر کے بیچ میں لے جاکر سمندر میں ڈال دو تو چلّائے گا اور منہ سے نکلے گا او مائی گاڈ! (O! My God)۔ معلوم ہوا کہ بندے کی فطری پکار اے خدا، اے میرے مالک ہے۔ خدا کا انکار کرنے والے بے وقوف لوگ ہیں، گدھے ہیں، عقل سے ناآشنا ہیں ورنہ کیا دیکھتے نہیں کہ اتنا پانی کون پیدا کرسکتا ہے۔ دیکھو جہاں تک نظر جا رہی ہے پانی ہی پانی ہے لہٰذا بڑے سے بڑا سرکش اور منکرِ خدا جب مصیبت میں گھرتا ہے تو خدا ہی یاد آتا ہے لیکن کافروں کو دیکھ کر ان پر حقارت کی نظر مت ڈالو کیوں کہ ابھی زندہ ہیں، ابھی ایمان عطا ہوسکتا ہے۔ مومنِ کامل وہ ہے جو ہر مسلمان سے اپنے کو کمتر سمجھے فی الحال اور کافروں اور جانوروں سے کمتر سمجھے فی المآل۔ یہ حکیم الامت تھانوی کا ارشاد ہے کہ تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال یعنی موجودہ حالت میں تمام مسلمانوں سے میں کمتر ہوں کیوں کہ کوئی مسلمان بے نمازی ہے، داڑھی منڈاتا ہے لیکن ممکن ہے کہ اس کا کوئی عمل ایسا ہوگیا ہو جو اللہ کے یہاں قبول ہوگیا ہو اور اس کی وجہ سے اس کا کام بن جائے اور ہمارا کوئی عمل ایسا ہوگیا ہو جو اللہ کو ناپسند ہوگیا ہو اور اس کی وجہ سے ہماری پکڑ ہوجائے یا نعوذ باللہ! سوئے خاتمہ ہمارے لیے مقدر ہوگیا ہو، ایمان نام ہے بین الخوف والرجا کا۔ خوف اور امید کے درمیان میں رہو، دعویٰ مت کرو کہ ہم بڑی اچھی تقریر کرتے ہیں، ہم بڑے مصنف ہیں، ہمارے اندر یہ اور وہ خوبیاں ہیں، اللہ ہم کو ضرور جنت دے گا، اللہ سے ڈرو، دعویٰ نہ کرو، خوف اور امید کے درمیان میں رہو۔ ہمارے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب ایمان پر خاتمہ ہوجائے تب خوشیاں مناؤ۔ جس وقت روح نکل رہی ہو اس وقت بھی شیطان دِل میں