پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
تو اس وقت پناہ مانگو گے کہ بابا! بس معاف کرو، اپنا تربوز اپنے پاس رکھو، تمہارا تربوز قابلِ یوز(Use) نہیں، لیکن اس وقت پناہ مانگنا کیا کمال ہے۔ کمال تو اس وقت ہے جب عالمِ شباب میں کوئی سولہ سال کی لڑکی بلائے کہ آؤ آؤ میں بہت اچھی ہوں یا کوئی حسین لڑکا بزبانِ حال کہے کہ مجھے دیکھو میں بہت حسین ہوں تو اس وقت وہاں سے بھاگو اور ان سے پناہ مانگو کہ تم لوگ میرے اللہ کے راستہ کے حجاب ہو۔ اس سے نظر بچاکر پھر مراقبہ کرو تو یہ مراقبہ مفید ہوگا۔ اگر نظر نہ بچائی تو کوئی مراقبہ مفید نہیں ہوسکتا کیوں کہ نظر سے لعنت برستی ہے اور ہدایت کا راستہ بند ہوجاتا ہے اس لیے پہلے نظر بچاؤ پھر سوچو کہ لڑکیاں اسّی برس کی بڈھیاں ہوگئیں اور لڑکے اسّی برس کے بڈھے ہوگئے اور پھر لاشیں ہوگئیں جن میں کیڑے چل رہے ہیں ؎ گیا حُسنِ خوبانِ دل خواہ کا ہمیشہ رہے نام اللہ کا مورخہ۲؍ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۱؍ مئی ۲۰۰۴ء بروز جمعہ بعد عشاءمجلس برمکان مفتی حسین بھیات صاحب، لینیشیا اچھے اشعار کی منصوص حکمت حضرتِ والا دام ظلہم العالی نے مولانا رفیق ہتھورانی سے اشعار پڑھنے کے لیے فرمایا۔ انہوں حضرتِ والا کی یہ غزل پڑھی ؎ دو جہاں کا مزہ اس کو حاصل نہیں آہ جو دل ترے غم کا حامل نہیں ارشاد فرمایا کہوعظ کبھی منثور کہتا ہوں کبھی منظوم کہتا ہوں یعنی کبھی نثر میں کہتا ہوں کبھی نظم میں۔ یہ میرا منظوم وعظ ہے جس میں میرے جگر کا خون شامل ہے۔ شعر ایسے ہی نہیں بنتے۔ دنیا دار تو لفاظی سے شعر بنادے گا لیکن میری شاعری میں میرا دردِ دل