پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
فرمایا،ان کے نسیان کو عصیان کیوں فرمایا میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے بارہ مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تھا مجھ کو تفسیر پڑھاتے ہوئے بتایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی علّوِ شان کی وجہ سے یہ ان کی بلندئ مرتبہ اور رفعِ مرتبت کی دلیل ہے کہ قرآن نے ان کے نسیان کو عصیان فرمایا۔ صاحب کلام اللہ تعالیٰ نے فَنَسِیَنازل فرماکر بتادیا کہ ان کا نسیان عصیان نہیں تھا، ہم تو خود اعلان فرمارہے ہیں کہ وہ بھول گئے تھے، جب ان کے گندم کھانے کو ہم بھول چوک فرمارہے ہیں تو تم کون ہو ان کو عصیان کا الزام دینے والے۔ میں ان کے نسیان کو عصیان سے اس لیے تعبیر کررہا ہوں کیوں کہ بڑوں کی بھول چوک بھی بڑی سمجھی جاتی ہے۔ ان کی بھول چوک کو میں نے عصیان اس لیے قرار دیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ آدم علیہ السلام بڑے عالی مرتبہ تھے اور ہم کو حق ہے کہ ہم اپنے بندے کے نسیان کو عصیان سے تعبیر کریں لیکن تمہیں حق نہیں ہے کہ میرے معصوم پیغمبر کے نسیان کو تم عصیان سے تعبیر کرو۔ اگر تم اس کو عصیان کہو گے تو گدھے اور سور سے بدتر ہوجاؤگے کیوں کہ عَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ کی تفسیر دوسری آیت میں فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا سے کرکے ہم نے ان کے عصیان کی خود نفی کردی۔قُربِ گم شدہ دوبارہ حاصل کرنے کا نسخہ حضرت علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا نازل ہوئی اس وقت آدم علیہ السلام مقامِ بُعد میں تھے، جنت سے اُتارے گئے تھے، دوری کے مقام پر تھے اس لیے فرمایا ؎ فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ ؎ آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے یہ کلمات حاصل کرلیے۔ یہ رب کا بتایا ہوا وظیفہ ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اہلِ عرب تلقّی کا محاورہ اس وقت استعمال کرتے تھے جب کوئی دور سے اور دیر سے آتا تھا اور اس سے ملاقات کرتے تھے اور قرآنِ پاک اہلِ عرب کے ------------------------------