پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اللہ والوں کی امتیازی دولت ارشاد فرمایا کہجو چیز اللہ تعالیٰ نے کافروں کو بھی دی اور ہم کو بھی دی وہ ہماری امتیازی دولت نہیں ہے کیوں کہ دشمن اور دوست میں جو چیز مشترک ہو وہ دوستوں کی امتیازی دولت کیسے ہوسکتی ہے۔ اللہ والوں کی امتیازی دولت وہ دردِ دل ہے، اللہ کی محبت کا مزہ ہے، گناہوں سے بچنے کے غم کی لذت ہے، حسرتوں کا غم ہے جو کافروں کو نہیں ملا۔ کافروں کو چاہے کتنا ہی مزہ ملے، ایک سے ایک عورتیں ملیں مگر ان کی کھوپڑی پر عذاب برستا ہے۔ ہر گناہ گار کی کھوپڑی ٹٹولو تو گرم ملے گی بلکہ میرا اعلان ہے کہ ہر گناہ گار جس نے ابھی گناہ نہیں کیالیکن گناہ کی اسکیم بنارہاہے۔ اس کا دماغ بھی آگ کی طرح گرم ہوگا۔ آج سے بیس سال پہلے ایک مدرسہ میں ایک غیر ملکی طالب علم کے یہاں ایک لڑکا جس کی داڑھی نہیں تھی اس کے ملک سے آگیا اور اس کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ طالب علم میرے پاس آیا کہ میرا سر گرم ہورہا ہے، مجھے تیل دے دیں۔ کچھ دن بعد پھر آیا۔ میں نے پوچھا تیل سے سر ٹھنڈا ہوگیا؟ کہنے لگا: سر تو ٹھنڈا نہیں ہوا تیل بھی گرم ہوگیا۔ میں نے کہا: معلوم ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا: بتائیے۔ میں نے کہا کہ اُس لونڈے کو فوراً ایئر پورٹ پہنچادو کہ وہ اپنے ملک چلا جائے، تم نے آگ سے دوستی کر رکھی ہے تو دماغ گرم نہ ہوگا؟ جن کے گال انگارے جیسے لال ہیں یہ دراصل عذابِ نار ہے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ دیکھ ان آتشیں رخوں کو نہ دیکھ ان کی جانب نظر نہ کر زنہار اور اچانک نظر جو آئیں تو پڑھ وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار یعنی لال گالوں کو دیکھنے سے خواجہ صاحب بچا رہے ہیں کہ ان کو مت دیکھو یہ بھی آگ کی طرح لال ہیں اس لیے ان میں عذاب نار کی خاصیت ہے۔ پس اے میرے رب! ہمیں عذابِ دوزخ سے بچالے۔ غالب نے کہا تھا ؎