پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
جہاز ہے۔ پھر بھی اگر کوئی حسینوں سے دل لگائے تو احمق نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ حسن عارضی چیز ہے، ابھی کچھ کبھی کچھ۔ جیسے جیسے عمر زیادہ ہوگی شکل ایسی ہوجائے گی کہ اس سے نفرت کروگے۔ جس حسین پر دل و جان فدا کرتے ہو اُسی سے نفرت کروگے۔ پہلے تو زمانۂ حُسن میں اس کو شربتِ روح افزا پلاتے تھے پھر سادہ پانی بھی پلانا مشکل ہوجائے گا۔ میرا شعر ہے۔ احقر سے فرمایا کہ پڑھو ؎ گُلبدن کے عشق سے پائے شفا دیکھ لے جو میر صاحب کا بدن بُلبلوں نے چیخ ماری مثلِ زاغ جب خزاں نے کردیا ویراں چمن احقر نے جب یہ شعر پڑھا تو حضرتِ والا نے روتے ہوئے فرمایا کہ میرے شعر کی قدر کرلو یارو! ایسا شعر کہنے والا بھی تم کو شاید ہی ملے۔دین میں ترقی اختیاری اعمال سے ہوتی ہے جنوبی افریقہ میں ایک چڑیا ہے جو بالکل صاف کہتی ہے حق تعالیٰ، ا س کی بولی ہییہ ہے اور دس سال پہلے جب حضرتِ والا پہلی بار جنوبی افریقہ تشریف لائے اور یہاں اس کی آواز سنی تو حضرتِ والا نے اس کی طرف توجہ دلائی کہ سنو یہ چڑیا کیا کہتی ہے۔ مولانا عبدالحمید صاحب کے مکان پر اسی چڑیا کی آواز آرہی تھی۔ حضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ پرندہ چاہے رات دن اللہ اللہ کرے لیکن ولی اللہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ اس ذکر پر مجبور ہے، اس کو اختیار نہیں کہ اس کے خلاف کرسکے۔ ولی اللہ صرف انسان یا جنات ہوسکتے ہیں کیوں کہ ان کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو عبادت کریں اور اگر نہ چاہیں تو نہ کریں۔ عبادت پر ثواب ہے اور نافرمانی پر عذاب ہے۔ اس اختیار کے باوجود جب بندہ عبادت کرتا ہے اور نافرمانی سے بچتا ہے تو اللہ کا ولی ہوجاتا ہے۔ جو انسان اللہ کا نام لیتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے وہ ولی اللہ ہوجاتا ہے اور جو گناہوں سے نہیں بچتا چاہے