پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
میں جہاں بھی رہوں جس فضا میں رہوں میرا تقویٰ ہمیشہ سلامت رہے تو حضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ چاہے زمین پر رہو چاہے فضاؤں میں اُڑتے رہو ہر جگہ تقویٰ سے رہو، اور نظروں کی حفاظت کرو۔ زمین پر تو لوگ حسینوں سے حفاظت کربھی لیتے ہیں مگر فضاؤں میں جہاز پر ایئر ہوسٹس کو دیکھ کر نوّے فی صد لوگ پاگل ہوجاتے ہیں۔ جب وہ پوچھتی ہے کہ جناب! کیا چاہیے بس پھر کچھ نہ پوچھیے زبان سے تو مارے شرم کے کچھ نہیں کہتے مگر ان کی آنکھیں کہہ دیتی ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں حتی کہ بال سفید ہوگئے ہیں، یہاں تک کہ بھنویں بھی سفید ہوگئی ہیں جب ایئر ہوسٹس آتی ہے تو ان کا بھی یہ حال ہوتا ہے ؎ چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے یعنی اپنی صورت دیکھیے کہ سفید ریش بابا بایزید بسطامی معلوم ہورہے ہیں مگر نظر مارکر مزہ لے رہے ہیں۔ ایئر ہوسٹس بھی سمجھتی ہے کہ اُلّو نمبر ون ہے مثلاً ڈربن سے جوہانسبرگ جارہے ہیں، اب ایئر ہوسٹس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں، آتے جاتے اس کا آگا پیچھا دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد جب جوہانسبرگ آگیا تو وہ اپنا بیگ سنبھالے گی اور کمر مٹکاتی ہوئی اُلّو بناکر چلی جائے گی اور یہ منہ کھولے ہوئے دیکھتے رہ جائیں گے۔ کیا یہ بے وقوفی نہیں ہے، گدھا پن نہیں، حماقت نہیں ہے؟ اسی لیے ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ بدنظری اور عشقِ مجازی کا مرض بے وقوف کو ہوتا ہے۔ جتنے بھی عشق باز ہیں سب بے وقوف اور احمق ہیں، انجام کی ان کو خبر نہیں۔گناہ کی تمنا کرنا بھی منافئ ولایت ہے بعض لوگوں نے نظر تو بچالی لیکن دل میں تمنا کرتے ہیں کہ کاش!یہ مل جاتی۔ گناہ کی تمنا رکھنے والا بھی ولی اللہ نہیں ہے کیوں کہ دل سے نافرمان ہے، ولی اللہ وہ ہے جو آنکھوں کو بھی بچائے، دل کو بھی بچائے۔ اللہ کی ناراضگی کے اعمال سے نفرت رکھے۔