پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
آدم علیہ السلام میرے اتنے پیارے اور اتنے مقرب ہیں کہ ان کی بھول کو بھی میں عصیان سے تعبیر کرتا ہوں۔ میرے شیخِ اول حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نسیان کو عصیان سے تعبیر فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تربیت مقصود تھی کیوں کہ عَصٰی اٰدَمُ رَبَّہٗ میں جو شانِ عتاب ہے اس سے حضرت آدم علیہ السلام کے قلب پر ایسی شکستگی و ندامت اور حزن و ملال طاری ہوا اور آپ اس قدر روئے کہ تفسیر علی مہائمی میں ہے کہ آپ کے آنسوؤں سے چھوٹے چھوٹے چشمے پیدا ہوگئے اور دنیا میں جتنے خوشبو دار پھول ہیں وہ آپ کے آنسوؤں کے ان ہی چشموں سے پیدا ہوئے ہیں۔ غرض اس ندامت گریہ وزاری اور حزن و غم کی راہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبدیت کے اس بلند مرتبہ پر پہنچادیا جہاں آپ کو تاجِ خلافت عطا ہونا تھا کیوں کہ علمِ الٰہی میں آپ خَلِیْفَۃُ اللہِ فِی الْاَرْضِبناکر پیدا کیے گئے تھے لیکن یہ خلافت آپ کو گریہ و زاری و ندامت کی راہ سے عطا ہوئی تھی کیوں کہ جو جتنا زیادہ مقرب ہوتا ہے وہ اپنی معمولی سی چوک پر بھی اتنا نادم ہوتا ہے کہ غیر مقرب کھلی ہوئی نافرمانی پر بھی نہیں ہوتے اور اسی قُربِ خاص کی وجہ سے مقربین عارفین کی معمولی سی چوک پر گرفت بھی ہوجاتی ہے۔ پس چوں کہ حضرت آدم علیہ السلام مقرب بارگاہِ تھے اور علمِ الٰہی میں خَلِیْفَۃُ اللہِ فِی الْاَرْضْ تھے اس لیے آپ کے نسیان کو اللہ تعالیٰ نے عصیان سے تعبیر فرمایا اور اس تعبیر سے آپ پر جو ندامت و شکستگی اور گریہ و زاری طاری ہوئی اور رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ۔ الخ کے کلمات القا ہوئے اور تربیت کی تکمیل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی دوسری شان ظاہر ہوئی اور تعبیرِ عصیان کو تعبیرِ نسیان سے بدل دیا اورآپ کے ٹوٹے ہوئے دل پر فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا کا مرہم رکھ دیا تاکہ آپ کارِخلافت انجام دینے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔صحبتِ اہل اللہ کی تاثیر کی وجہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور بزرگوں سے بھی سنا کہ