پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اللہ نہیں رکھا۔ فرعون نے اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی تو کہا کہ میں تمہارا اعلیٰ رب ہوں مگر وہ بھی اپنا نام اللہ نہیں رکھ سکا۔ اللہ نے اپنے نام کی تکوینی حفاظت فرمائی کہ کسی باطل خدا کے ذہن میں ہی نہیں آنے دیا کہ وہ اپنا نام اللہ رکھے کیوں کہ وہ لَا مِثْلَ لَہٗ ہے، اس کی واحد ذات ہے جو ازلی بھی ہے اور ابدی بھی ہے یعنی اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جو ازلی بھی ہو اور ابدی بھی ہو۔ جنت بھی ازلی نہیں ابدی ہے۔ یعنی ہمیشہ سے نہیں تھی، پیدا کی گئی اور ہمیشہ رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بے مثل ہے وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔اللہ اس وقت بھی موجود تھا جب کوئی نہیں تھا، نہ عرش نہ کرسی، نہ زمین، نہ آسمان نہ او رکوئی مخلوق۔ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اللہ کو کوئی سمجھ نہیں سکتا اور کیوں نہیں سمجھ سکتا؟ اس لیے کہ ہماری عقل محدود ہے اور اللہ غیر محدود ہے، تو غیر محدود عقلِ محدود میں کیسے آسکتا ہے؟ کیوں کہ محدود میں جو چیز آئے گی وہ محدود ہوگی، لہٰذا جو سمجھ میں آجائے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ اسی کو اکبر الٰہ آبادی نے کہا ؎ عقل جس کو گھیرلے لاانتہا کیوں کر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا ہم جان گئے بس تری پہچا ن یہی ہےدل میں اللہ کے آنے کا مطلب ارشاد فرمایا کہ حدیثِ قدسی ہے کہ میں نہیں سمایا آسمانوں میں اور زمینوں میں مگر مومن کے دل میں مثل مہمان کے آجاتا ہوں۔ اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؎ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم ------------------------------