پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
مجلس بَرمکان مفتی حسین بھیات صاحب،لینیشیا مؤرخہ۷؍ربیع الاول ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۷؍اپریل۲۰۰۴ ء ، بروز منگل بوقت ساڑھے دس بجے صبح کچھ احباب حضرتِ والا کے کمرے میں جمع ہوگئے۔ حضرتِ والا سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر صاحب نے کچھ اشعار سنائے جو انہوں نے اپنی بیوی کی جدائی میں کہے تھے۔حسن کی فنائیت اور دھوکا ارشاد فرمایا کہبیوی کی محبت جائز ہے لیکن مقصدِ حیات نہیں ہے، مقصدِ حیاتلِیَعْبُدُوْنِ ہے، اللہ کی عبادت ہے اس لیے بیوی کو بھی زندگی کا سہارا نہ بناؤ ورنہ جب یہ بڈھی ہوجائے گی تو کس سے دل بہلاؤ گے، مان لو وہ اسّی برس کی بڑھیا ہوگئی، کمر جُھک گئی، رکوع کی حالت میں آئی، گیارہ نمبر کا چشمہ لگائے ہوئے، لٹھیا پکڑے ہوئے، گال پچکے ہوئے، چہرہ پر جُھریاں، پنڈلیاں سوکھی ہوئی تو اس وقت یہ شعر کہو گے یا غزل جیب میں رکھ کر بگٹٹ بھاگو گے جیسے گھوڑے کی باگ ٹوٹ جاتی ہے اور وہ بھاگتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ؎ زلف جعد و مشکبار و عقل بر جو زلفیں کالی کالی گھونگھر والی مُشکبار ہیں یعنی مشک کی بارش کررہی ہیں اور عقل کو اُڑارہی ہیں ؎ آخر اُو دمِ زِشتِ پیرِ خر بڑھاپے میں وہی زُلفیں سفید ہوجائیں گی اور ان کی چُٹیا بڈھے گدھے کی دُم معلوم ہوگی۔ اس وقت کوئی یہ غزل نہیں پڑھ سکتا اور کوئی غزل نہیں کہہ سکتا اور کسی زمانے کی لکھی ہوئی غزل اَب پڑھتے ہوئے شرم آئے گی۔ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے، فریب ہے، سراب ہے، ہر جوانی بڈھی ہونے والی ہے۔ مولانا رومی نے فرمایا: