پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
فرمائیوَکَانَ اَمْرُ اللہ قَدَرًا مَقْدُوْرَّا۔؎ قضا و قدر غالب آجائے گی،ضعفِ بشریتِ نفس سے مغلوب ہوکر عارف سے بھی زنا ہوسکتا ہے لیکن عام زانی میں اور اس میں کیا فرق ہوگا؟ کہ عام زانی پر تو گناہ ایسا ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھ جائے لیکن عارف باللہ اگر کبھی پھسل گیا تو اس کی توبہ بھی اسی مقام سے ہوگی، جس درجہ دل میں اللہ کی محبت ہوتی ہے اُسی درجہ کی اس کی توبہ بھی ہوتی ہے، یہ کلیجہ اللہ کے سامنے رکھ دے گا، خون کے آنسو بہادے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْتم اپنے رب سے مغفرت مانگتے رہو اِسْتَغْفِرُوْاللہَ نہیں فرمایا رَبَّکُمْ فرمایا تاکہ میرے بندوں کو امید ہو کہ پالنے کی محبت ہوتی ہے، پالنے والا جلد معاف کردیتا ہے اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ؎ وہ بہت بڑا بخشنے والا ہے، غَافِرْنہیں غَفَّار ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ غَفَّار کے الف کو کھینچتے چلے جاؤ، یہاں سے آسمان تک کھینچوتو الف ہی رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی مغفرت کی انتہا نہیں ہے۔ گناہ سے پہلے تو گناہ سے ڈرتے رہو، کانپتے رہو لیکن اگر گناہ ہوجائے تو مایوس بھی نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لو وہ فوراً معاف فرمادیتے ہیں یہاں تک کہ جس بندے کو مقبول فرمالیتے ہیں اس کی رسوائیوں کا تدارک بھی فرمادیتے ہیں۔ اپنا بیٹا اگر رسوا ہوجائے تو باپ اگر بادشاہ ہے تو بیٹے کو کوئی بڑی پوسٹ دے دیتا ہے مثلاً کسی صوبہ کا گورنر بنادے گا۔ ایسے ہی جس بندہ سے خطا ہوگئی اور وہ نادم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کی رسوائی اور بے آبروئی کی تلافی بھی فرمادیتے ہیں اس کو اللہ ابدال، قطب یا قطبُ الاقطاب بنادے گا یا کوئی کرامت اس سے صادر کرادے گا تاکہ میرے بندے کی رسوائیاں دُھل جائیں اور اس کی ذلت رفع ہوجائے۔افاضۂ باطنی کی مثال تھوڑی دیر بعد ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی معمول تھا کہ وہ مجمع کا انتظار نہیں کرتے تھے کیوں کہ جب ------------------------------