پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہورہے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق ہوا لیکن بیعت حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا۔ حضرت کے انتقال کے بعد حضرت ہر دوئی سے تعلق کیا۔ اس کے بعد حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا۔ اگرچہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے بھی مجھ کو خلافت دی لیکن حضرت ہر دوئی کے صدقہ ہی میں آج مجھے دنیا پوچھ رہی ہے۔ لیکن بعض لوگوں کو دوسرے شیخ کو شیطان معمولی دکھاتا ہے۔ جب یہ خیال آئے کہ پہلا شیخ بڑا تھا، موجودہ شیخ معمولی ہے تو سمجھ لو شیطان مردود آگیا اور شیخ کے فیض سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس کی بات میں نہیں آنا چاہیے۔ اپنے شیخ کے بارے میں ساری دنیا کے بزرگوں سے بڑھ کر عقیدہ رکھنا چاہیے کہ ساری دنیا کے بزرگ محترم ہیں، میرے لیے قابلِ عزت ہیں لیکن میرے لیے میرا شیخ ہی مفید ہے۔ شیخ کو پہچاننے کے لیے بھی عقل اور دل و دماغ ہونا چاہیے۔ شیخ کی مثال ایسی ہے جیسے اپنی ماں،جس ماں کا دودھ پی کر جوان ہوا ہے اس ماں کا احسان ماننا چاہیے۔ اپنی ماں چاہے جیسے بھی ہو، چاہے گرم مزاج کی ہو، کڑوے مزاج کی ہو لیکن اس کے دودھ سے تمہاری پرورش ہوئی ہے۔ دوسرے کی ماں کتنی ہی ٹھنڈے مزاج کی ہو، کتنا ہی پیار دے مگر اس نے دودھ نہیں پلایا، اس کے دودھ پر تم تھوڑی پلے ہو۔ اسی طرح شیخ روحانی ماں ہے۔ دوسرے شیخ کیسے بھی ہوں مگر ہمیں تو اپنے شیخ کا دودھ ملا ہے، ہماری پرورش تو انہوں نے ہی کی ہے، ان ہی کی برکت سے آج سارے عالم میں ڈنکا پٹ رہا ہے۔ اپنی ماں اگر ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتی ہے تو یہ بھی اس کی شفقت اور رحمت کی وجہ سے ہے۔ حضرت نے ایک دفعہ ہردوئی میں فرمایا تھا کہ میری ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرایا نہ کرو۔ اگر تم میری برداشت نہیں کروگے تو تمہاری بھی تو اولاد ہے یعنی تمہارے مرید تمہاری کیسے برداشت کریں گے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اللہ والوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ شیخ کے ادب اور اس کے ناز اُٹھانے پر حضرت حکیم الامت تھانوی مست ہوکر یہ شعر پڑھتے تھے ؎