پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کہ حضرت کو اللہ تعالیٰ سے کتنا تعلق ہے۔ لکھنؤ میں مولانا علی میاں کے یہاں جلسہ تھا بس وہاں فوٹو کشی ہونے لگی۔ حکومت کی طرف سے انتظام تھا، مولانا علی میاں بے چارے مجبور تھے۔ غرض جو وجہ بھی ہو حضرت مولانا ابرارالحق صاحب اُٹھے اور مولانا محمد احمد صاحب سے مشورہ کیا کہ یہاں خلافِ شرع کام ہورہا ہے، اب یہاں سے ہٹ جانا چاہیے ورنہ یہاں رہنے سے گناہ میں شرکت لازم آئے گی۔ دونوں بزرگوں نے بستر اُٹھایا اور ہردوئی تشریف لے آئے، اتنا بڑا مجمع، بڑے بڑے علماء موجود، حکومت کا انتظام لیکن حضرت نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ مولانا علی میاں نے فرمایا کہ مولانا ابرارالحق صاحب بڑے اولوالعزم ولی اللہ ہیں۔ ایسے ہی دیو بند کا سو سالہ جلسہ تھا۔ دیوبند سے پیدا ہونے والے علماء سب وہاں گئے تھے۔ اس میں اندرا گاندھی بھی آگئی، کسی کو منع کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگر ہمارے حضرتِ والا ہر دوئی کے ہاتھ میں انتظام ہوتا تو ہر گز نہیں آسکتی تھی۔ تو حضرت نے وہاں سے بھی فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ اختیار کیا۔ دیوبند کو خالی کردیا۔ کتنی بڑی ہمت کا کام ہے کہ دنیا بھر کے علماء وہاں بیٹھے تھے یہاں تک کہ حضرت کے استاذ مولانا محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس میں تھے لیکن حضرت نے فرمایا کہ اب یہاں رہنا جائز نہیں ہے۔ اس میں شرکت لازم آئےگی۔ جس مجلس میں مَردوں کے درمیان عورت آکر بیٹھ جائے اس میں شرکت خلافِ شریعت ہے۔ لہٰذا ساری دنیا تو دیو بند جارہی تھی اور حضرت دیو بند سے واپس آرہے تھے۔ اللہ کے حکم کے سامنے ساری دنیا کی پرواہ نہ کرنا بڑی ہمت کا کام ہے، یہ شیروں کا کام ہے۔ اگر حضرتِ والا کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق نہ ہوتا تو یہ ہمت ہوتی؟ کہ بڑے بڑے علماء بیٹھے ہوئے ہیں لیکن حضرت نے جس کام کو جائز نہیں سمجھا تو کسی کی پرواہ نہیں کی، بس اللہ کی رضا کو سامنے رکھا۔ حضرت کا جو تعلق مع اللہ اور نسبت ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسی وجہ سے ماشاء اللہ! حضرت ہردوئی دامت برکاتہم کا فیض عام اور تام ہے اور ہمارا جو کچھ کام ہے حضرت کی جوتیوں کا صدقہ ہے ورنہ اختر کو کون پوچھتا اگر حضرت اجازتِ بیعت نہ دیتے۔ یہ سب کچھ بہار اور رونق حضرت کے تعلق کی ہے، حضرت کی اجازت کی وجہ سے لوگ سلسلہ میں داخل