پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
جل جاؤں گا۔ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آگے بڑھے اور ستّر ہزار حجاب آپ کو طے کرائے گئے یہاں تک کہ تمام انسانوں اور فرشتوں کی آوازیں منقطع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ معلوم ہوا کہ گھبرانا بھی سنتِ نبی ہے۔ اس وقت ایک پُکارنے والے نے حضرت ابوبکر صدیق کے لہجہ میں آواز دی کہ ٹھہر جائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایک فرشتہ ابو بکر کی صورت کا پیدا کیا جو آپ کو ان کے لہجہ میں پُکارے تاکہ آپ کی وحشت اور گھبراہٹ دور ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم تو بہت تھے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز ہی میں فرشتے کی آواز کیوں سنائی گئی؟ اللہ تعالیٰ خالقِ دل ہیں وہ اپنے نبی کے دل کو بہلانے کا سامان جانتے تھے کہ آپ کی جانِ پاک نبوت جانِ صدیق سے مانوس تھی۔ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ میرے نبی کو سب سے زیادہ محبت و مناسبت کس سے ہے اور میرے نبی سے سب سے زیادہ محبت کس کو ہے، اس لیے فرشتہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شکل میں پیدا فرماکر ان کی آواز سنائی گئی تاکہ آپ کی وحشت دور ہو کیوں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یارِ غار تھے اور بچپن کے دوست تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے اور ضعیف کیوں پیدا کیا؟ تاکہ اپنے ضعف کو دیکھ کر ہمیں پکارے، اپنی یاد کے لیے ہمیں ضعیف پید اکیا لیکن ضعیف ہوتے ہوئے تو ہمارا یہ حال ہے کہ ان کو یاد نہیں کرتے اگر کہیں قوی ہوتے تو پھر بالکل ہی غافل ہوجاتے اور مجہول کا صیغہ کیوں نازل کیا؟ کیوں کہ ضعیف ہونا ایک نقص ہے اور ضعیف پید اکرنے کی نسبت عظمتِ شانِ الٰہیہ کے منافی تھی اس لیے مجہول کا صیغہ نازل فرمایا۔ پس جب ہم ضعیف ہیں تو گھبراہٹ ہونا بھی لازمی ہے پس جب تمہیں گھبراہٹ محسوس ہو تو کسی اللہ والے کے پاس چلے جاؤ لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے مناسبت ہو۔ مناسبت ہوگی تو دل بہل جائے گا۔ کیوں کہ وہ بھی انسان ہے اور تم بھی انسان اور انسان، انسان سے مانوس ہوتا ہے۔ جب میری والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا تو ان کا پاندان، ان کی چارپائی اور ان کی چیزیں دیکھ کر میرا دل رونے لگتا تھا تو میں دل بہلانے کے لیے کراچی سے دور اپنے بعض اللہ والے