پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
نے آسمان و زمین پر امانت کو پیش کیا تو مارے ڈر کے انہوں نے اُٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اس بارِ امانت کو اُٹھالیا۔ آسمان و زمین تو اللہ کی محبت کی اس امانت کو اُٹھانے سے عاجز ہوگئے لیکن ؎ در دلِ مومن بگنجیدم چوضیف یہ مولانا روم ہیں، مذکورہ حدیثِ قدسی کا گویا ترجمہ کردیا کہ مومن کے دل میں مثلِ مہمان کے آجاتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو دل بنایا ہے اس کا مادہ اور مٹیریل بھی عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دل میں آجاتے ہیں جو غیر اللہ سے پاک ہوجاتا ہے، بس یہی شرط ہے اس لیے کلمۂ توحید میںلاالٰہ پہلے ہے الا اللہ بعد میں ہے، جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ پہلے غیر اللہ کو نکالو تب اللہ ملے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کتے بلی کا گو بھی لگائے رکھو اور عطر عود کی خوشبو میں بھی بس جاؤ جس طرح بدبو اور خوشبو جمع نہیں ہوسکتے اسی طرح غیر اللہ کے ساتھ اللہ کو نہیں پاسکتے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ان بتوں یعنی مرنے گلنے والی لاشوں کو، لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی دل میں رکھو اور انتظار کرو کہ اس ناپاک دل میں اللہ تعالیٰ بھی آجائے گا۔ اللہ پاک ہے، وہ پاک دل میں آتا ہے، جو دل کو غیر اللہ سے پاک کرتا ہے۔ خونِ آرزو پیتا ہے یعنی ناجائز آرزوؤں کا خون کرتا ہے وہ شیر کی طرح ہے جو ہرن کا خون پیتا ہے۔ شیر جب ایک دھاڑ مارتا ہے تو لومڑیوں کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح مؤمن کامل کے سامنے نفس کی کُتی کی کیا حقیقت ہے۔ اللہ کے راستے میں جو شیرانہ مزاج رکھتا ہے نفس اس پر قابو نہیں پاسکتا اور جو نفس کی ناجائز بات مانتا ہے یہ دلیل ہے کہ نفس اس پر سوار ہے جیسے گھوڑا تو سواری کے لیے دیا گیا لیکن کوئی گھوڑے کو خود پر سوار کرلے تو کیا علاج کہ سواری کو خود پر سوار کرلیا۔ خوب سمجھ لو جو نامحرم عورتوں اور امردوں کی ناپاک محبت دل میں رکھے گا اللہ پاک کی محبت سے محروم رہے گا بلکہ محبت کیا جو گناہوں کا شوق اور حسرت دل میں رکھے گا کہ کاش! اگر جائز ہوتا تو میں چھومنتر سیکھ کر اس عورت یا امرد کو قابو میں لے آتا یہ حسرت ہونا دلیل ہے کہ اس کے دل میں ابھی ناپاک مرض ہے، گناہ تو نہیں کرتا لیکن گناہ کا شوق رکھتا ہے اور گناہ