پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
چکھیں گے؟ اللہ کی نافرمانی یا نافرمانی کا سبب زہر سے کم نہیں ہے، کچھ نہیں تو نافرمانی کے وساوس تو آہی جائیں گے، وسوسہ سے تو بچ نہیں سکتے۔ اگر بہت متقی ہے تب بھی وسوسہ آجائے گا کہ کیا بات ہے، ہدیہ کیوں دیا، معلوم ہوتا ہے کہ میری داڑھی کے باوجود میں پسندیدہ ہوں،ا س کی نظر میں شاید سلیکٹ (Select) ہورہا ہوں۔ یاد رکھو زہر کو زہر سمجھو، اللہ کی نافرمانی سے بڑھ کر کوئی زہر، کوئی عذاب نہیں ہے۔ ہزاروں لاکھوں دل ٹوٹ جائیں، ٹوٹنے دو، اللہ کے قانون کے سامنے دل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ دیکھیے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فرمادیا کہ کسی حسین کو دیکھ کر اگر ٹوپی ٹھیک کرلی، داڑھی کو ہاتھ سے برابر کرلیا تو یہ بھی حرام کام کیا کیوں کہ اس حسین کی نظر میں تم منظور بننا چاہتے ہو۔ یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے، حسینوں کا ہدیہ واپس کرنا بڑے اللہ والوں کا، اللہ کے شیروں کا کام ہے، یہاں بڑے بڑوں کا دل پسیج جائے گا کہ ارے یار! اس کا دل دکھے گا، کہے گی کہ ملا لوگ خشک ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمت مردانہ چاہیے، ہمت شیرانہ چاہیے، شیر ہرن کا خون پیتا ہے تم بھی اپنے نفس کا خون پیو۔ نفس سے کہہ دو کہ چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے چاہے سمجھے مُلا خشک ہوتے ہیں، چاہے غیبت بھی کرے ادھر ادھر برائی بھی بیان کرے، تم سب بدنامی برداشت کرو پھر آسمان کی طرف دیکھو کہ اے اللہ! آپ کے لیے دنیا بھر کی بدنامی برداشت کرتا ہوں ورنہ اگر ہدیہ لے لیا اور اس کی محبت بڑھ گئی اور گناہ کا وسوسہ دل میں آگیا تو گناہِ کبیرہ تک میں مبتلا ہوسکتا ہے اس لیے حسینوں کا ہدیہ قبول نہ کرو، نہ لو نہ دو، ایک آدمی خود کتنا ہی بدصورت ہو، ناک کا چپٹا آنکھ کا بھینگا لیکن جب اس کو کوئی عورت دیکھتی ہے یا کوئی حسین لڑکا دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں کچھ اس کی نظر میں جچ رہا ہوں، ضرور کوئی بات ہے جب ہی تو یہ مجھ کو دیکھ رہی ہے یا دیکھ رہا ہے حالاں کہ وہ بے وقوف سمجھ کر دیکھتے ہیں کہ ذرا دیکھ لو اس بے وقوف کو۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎ چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے