پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
فقیر ہیں، ان کو بادشاہت کی بھیک اللہ دیتا ہے، جب تک چاہتا ہے تخت پر بٹھاتا ہے اور جب چاہتا ہے تخت سے اُتار کر تختہ دار پر چڑھادیتا ہے۔ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ؎ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم یہ ایام لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ پھر تشدید پر ایک الف بھی ہے اور الف کو چاہے جتنا کھینچو، آسمان تک لے جاؤ، بلکہ ساتوں آسمان اور عرش و کرسی سے بھی اُوپر لے جاؤ تو بھی الف ہی رہے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بڑائی کی کوئی حد، کوئی انتہا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات غیر متناہی ہے، لیکن اس بڑائی کے باوجود اللہ نے اپنے بندوں کی آہ کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ آہ کہو اور اللہ کہو تو آہ میں اور اللہ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ اللہ کھینچ کر کہو تو اس میں ہماری آہ بھی شامل ہے یعنی اپنے بندوں کی آہ کو اپنے کلیجے سے لگا رکھا ہے۔ اس کے برعکس جتنے جھوٹے خدا ہیں جیسے فرعون، نمرود، شدّاد وغیرہ کسی کے نام میں ہماری آہ شامل نہیں۔ بس جو ہماری آہ کا خریدار نہیں وہ ہمارا خدا کیسے ہوسکتا ہے۔ ہمارا اللہ تو ہماری آہ کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اسی لیے مظلوم کی آہ سے ڈرنے کا حکم ہے کیوں کہ آہ کو اللہ تک پہنچنے میں کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں۔ میرا شعر ہے ؎ بردرِ رحمت چو دربانے نبود آہ را در وصل حرمانے نبود اللہ کی رحمت کے دروازے پر جب کوئی دربان نہیں تو آہ کو اللہ تک پہنچنے میں کوئی محرومی نہیں ہوسکتی ؎ بردرِ آں شاہ چوں درباں نبود آہ را پس اذنِ عام آمد نبود اس شاہِ حقیقی کے دروازے پر جب کوئی دربان نہیں تو ہر شخص کی آہ کو دربارِ حق کی رسائی کے لیے اذنِ عام ہے۔ اور دنیا میں جتنے جھوٹے خدائی دعویٰ کرنے والے ہوئے ہیں کسی نے اپنا نام ------------------------------