پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں سترہ سال رہا۔ مگر میں آپ کو اتنا نہیں بتاؤں گا کہ آپ لوگ بھی سترہ سال رہیں۔ بس دوستو! چالیس دن نکالو جہاں مناسبت ہو وہاں رہو۔ ہمت کرو۔ گناہ کرنے کا ارادہ دل سے نکال دو۔ لذتِ حرام اور خبیث کو دل سے نکال دو۔ اپنے نفس سے کہہ دو کہ اے نفس کمینے! تجھ کو خوش نہیں کروں گا، اپنے اللہ کو خوش کروں گا ، جس نے ہم کو پیدا کیا ہے، اس پیدا کرنے والے کا حق زیادہ ہے یا نفس کا؟ پیدا کرنے والے کا حق زیادہ ہے۔ جب مرجاؤ گے تو کیا کروگے؟ کیا مرنے کے بعد بھی گناہ کرو گے؟ کوئی مردہ گناہ کرسکتا ہے؟ زندگی ہی میں گناہ چھوڑ دو تو اللہ کے ولی ہوجاؤ۔ تقویٰ فرضِ عین ہے۔ یہ مضمون اختیاری نہیں ہے یعنی اپنا دوست بنانا اللہ نے فرضِ عین کردیا۔ اشراق، چاشت، اوابین نفل ہیں، فرض نہیں لیکن متقی بننا ہر مسلمان پر فرضِ عین ہے۔ اور تقویٰ نام ہے گناہ چھوڑنے کا، جسے اللہ تعالیٰ ملنا چاہتے ہیں، جس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ کا قُرب لکھا ہوتا ہے اس کو خونِ تمنا کی توفیق دیتے ہیں۔ ناجائز تمنا، مرضیٔ الٰہی کے خلاف جو تمنائیں ہیں ان کا خون کرنا اس کو آتا ہے اور جب تک نہ آئے تو سمجھو خدا کی رحمت سے دور ہے اور عذاب میں مبتلا ہے۔ پوچھ لو اس سے جو خونِ تمنا نہیں کرتا اس کے دل پر ہر وقت عذاب ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسی کو ملتے ہیں جو خونِ تمنا کرنا جانتا ہو، خونِ تمنا کرنا ہیجڑوں کا کام تھوڑی ہے، اللہ کے راستے کے مَردوں کا کام ہے۔ اللہ کی مرضی پر چلنا اور اللہ کی ناراضگی سے بچنا یہ ہیں مَردوں کے کام۔ اللہ کی مرضی پر جان دینا اور اللہ کی ناراضگی سے بچنا اور خونِ تمنا پینا یہ ہے اللہ کا راستہ، جن لوگوں نے اللہ کا راستہ صرف یہ سمجھا کہ بس نماز روزہ کرلو، وظیفہ پڑھ لو، لیکن گناہوں سے بچنے کا اور حرام آرزوؤں کا خون کرنے کا اہتمام نہیں کیا وہ محروم رہے۔ اس زمانے میں سب سے بڑا خونِ آرزو نگاہوں کی حفاظت کرنے میں ہے۔ اسی میں لوگ چوری کرتے ہیں۔ اس لیے سارے عالم میں اختر کی یہی صدا ہے۔ مریض ہوں لیکن اسی غم کو لیے ہوئے در بدر پھرتا ہوں کہ یارو! اگر اللہ کو پانا ہے تو نگاہوں کی حفاظت کرو اور دل کی حفاظت کرو۔ فضائی ماسیوں (ایئر ہوسٹسوں) سے بھی اپنی نظر بچاؤ کیوں کہ وہ اپنے کو اس قدر جاذبِ نظر بناتی ہیں کہ بڑے بڑے متقی کے