پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
دنیا اور آخرت دونوں میں ضروری ہے۔ پس دنیا میں اہل اللہ سے جو مستغنی ہوگا اس کا دین سلامت نہ رہے گا۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡکے بعد فرمایا وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ اس تقدم و تاخر میں بہت علوم ہیں۔ اللہ والوں کی ملاقات کو جنت پر مقدم فرمایا یعنی نعمتوں کا درجہ بعد میں ہے پہلے ان سے ملو جن کے دل میں نعمت دینے والا ہے، پہلے میرے خاص بندوں سے ملو، ان کو مجھ سے نسبت ہے یعنی جنت کی نعمتیں بعد میں استعمال کرو، پہلے میرے عاشقین سے ملو کیوں کہ میں ان کے دل میں ہوں۔ مطلب یہ ہوا کہ پہلے خالقِ جنت سے ملو پھر جنت میں جاؤ۔ میرے خاص بندوں سے ملنا گویا مجھ سے ملنا ہے۔ جب تم ان سے ملو گے تب تم کو جنت کا لطف زیادہ آئے گا۔ منعمِ حقیقی جن کے دلوں میں ہے جب ان سے مل کر آؤ گے تو نعمت کا مزہ اور بڑھ جائے گا، جنت کا مزہ اور بڑھ جائے گا، جنت کا مزہ موقوف ہے اللہ والوں کی ملاقات پر کیوں کہ یہ میرے بندے ہیں، دنیا میں بھی یہ میرے ہوکے رہے، نہ نفس کے ہوئے نہ شیطان کے ہوئے ساری زندگی میرے بن کے رہے، نفس و شیطان کی بات نہیں مانی پھر میں یائے تخصیصیہ کیوں نہ لگاؤں، ان کو کیوں نہ کہوں عِبٰدِیۡکہ یہ میرے ہیں، ورنہ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبَادٍ فرمادیتے کہ جاؤ بندوں میں بیٹھو۔ نہیں! عِبٰدِیۡ فرمایا کہ یہ میرے خاص بندے ہیں،یہ دنیا میں بھی میرے ہو کے رہے، مجھ پر قربان رہے جسم سے، جان سے، ہر سانس سے، جب کہ ان کو تقاضے گناہ کے بھی تھے لیکن گناہوں کے تقاضوں پر صبر کیا فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقۡوٰىہَا ہم نے ان کے اندر نافرمانی کا مادہ بھی پیدا کیا تھا اور تقویٰ کا مادہ بھی پیدا کیا تھا مگر انہوں نے تقویٰ کے مادہ پر عمل کیا نافرمانی کے مادہ پر صبر کیا، گناہوں کے تقاضے تو ان کو رہے مگر ان پر صبر کیا اور تقویٰ کے تقاضوں پر عمل کیا، یہ ہمارے بن کے رہے، اگر کبھی غلطی بھی ہوگئی تو توبہ سے اس کی تلافی کی، دل سے توبہ کی، اللہ کے حضور میں کلیجہ رکھ دیا اور خون کے آنسو بہائے، مولانا رومی نے فرمایا کہ آنسو اصل میں جگر کا خون ہے مگر خدا کے خوف سے پانی بن گیا ہے ؎ در مناجاتم ببیں خونِ جگر اے دنیا والو! میرے آہ و نالوں میں میرے جگر کا خون دیکھ لو، میری مُناجات خالی زبانی