پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اورفَادۡخُلِیۡ بِعِبٰدِیۡنہیں فرمایا کہ میرے بندوں کے پاس جاؤ بلکہ فرمایا فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡمیرے بندوں میں داخل ہوجاؤ یعنی سر سے پیر تک دل اور جان اور جسم سب لے جاؤ۔ دخول کی دو قسمیں ہیں: دخولِ تام اور دخولِ ناقص۔ تام یہ ہے کہ جسم دل اور جان سب داخل ہوجائے اور ناقص یہ ہے کہ جسم داخل ہو اور دل کہیں اور ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس اندازِ بیان پر قربان ہوجائیں تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ فرمایا چوں کہ ظرف مظروف کو بالکل گھیر لیتا ہے۔ اللہ والوں کے ظرف میں تمہارے قلب اور جسم و جاں کا مظروف بالکل سَما جائے۔ اس کے بعد وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ہے جنت کی نعمت خالص ہے، وہاں کوئی الم اور رنج و غم نہیں ہوگا، جنت خالص راحت ہوگی تو خالص راحت میں پہلی راحت اللہ تعالیٰ نے یہی بیان کی کہ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡمیرے خاص بندوں میں داخل ہوجاؤ، تم کو بہت آرام ملے گا کیوں کہ ان کے پاس آرامِ جاں ہے، وہ اپنے دل میں خالق کو لیے ہوئے ہیں اس لیے ان کے پاس تم کو مکمل اور بے مثل آرام ملے گا۔ اس لیے جسم سے، دل سے، روح سے میرے بندوںمیں داخل ہوجاؤ، خالی جسم نہ لے جاؤ کہ بیٹھے تو ہو اللہ والوں کے پاس اور دل حوروں میں لگا ہوا ہے اس لیے فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡہے کہ میرے بندوں میں داخل ہوجاؤ مع جسم و دل اور روح کے اور جنت میں یہ خود بخود ہوگا، اللہ کے خاص بندوں کی ملاقات میں حوریں وغیرہ یاد نہ رہیں گی کیوں کہ ان کے پاس اللہ ہے جو خالقِ حور ہے، جو جنت کی تمام نعمتوں کا خالق ہے۔ پس اللہ والوں کے پاس خالقِ جنت ہے اس لیے پہلے ان کے پس بیٹھو پھر بعد میں جنت جاؤ، نعمتیں تمہارے لیے بنائی ہیں، نعمتوں میں مشغولی بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہے مگر فَادْ خُلِیْ مضارع سے بنا ہے اور مضارع میں حال اور استقبال دوزمانہ ہوتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ اہل اللہ سے ملنے کے بعد اہلِ جنت، جنت کی نعمتوں سے مستفید ہوکر اہل اللہ کی صحبت میں بار بار آئیں گے اس لیے حکم ہورہا ہے کہ حالاًّ بھی اللہ والوں میں داخل ہوجاؤ اور مستقبل میں بھی ملتے رہو۔ جنت سے اور حوروں سے استفادہ کرو پھر آکر اہل اللہ سے ملو جنت میں بھی تم اہل اللہ سے مستغنی نہیں ہوسکتے۔ صیغۂ مضارع استمرار کا متقاضی ہے۔ اللہ والوں کا ساتھ