فقہائے امت کا تارکینِ جماعت کے متعلق یہ حکم بے وجہ نہیں، عرض کیا جاچکا ہے کہ ترکِ جماعت نفاق کی علامت سمجھی گئی ہے، اذان سن کر بھی جو مسجد میں نہ آئے اس کی نماز نماز نہیں کہی جاتی تھی۔ صحابۂ کرام ؓ کا یہ حال تھا کہ بڑی سے بڑی مجبوری میں بھی ترکِ جماعت کی ہمت نہ فرماتے تھے، کسی نے اپنے معقول عذر سے مجبور ہو کر پوچھا بھی تو آں حضرت ﷺ نے نفی میں جواب دیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے:
أتی النبيَّ ﷺ رجلٌ أعمی، فقال: یا رسول اللّٰہ، إنہ لیس لي قائد یقودني إلی المسجد، فسأل رسول اللّٰہ ﷺ أن یرخص لہ فیصلي في بیتہ، فرَخَّصَ لہٗ، فلما ولَّی دعاہ، فقال: ہل تسمع النداء بالصلاۃ؟ قال: نعم۔ قال: فأجِبْ۔ (مسلم: باب صلاۃ الجماعۃ: ۱/۲۳۲)
نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا شخص حاضر ہوا اور اس نے آپ سے درخواست کی، کہ مجھے کوئی راہبر نہیں ملتا جو مجھے لے جایا کرے، لہٰذا مجھے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت فرما دیں۔ آپ نے اس کو رخصت (اجازت) دیدی، جب واپس ہوا تو پھر بلایا اور پوچھا: ’’تم اذان سنتے ہو یا نہیں‘‘؟ اس نے کہا: جی ہاں، سنتا تو ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر قبول کرو اور مسجد آؤ‘‘۔
اسی طرح کا واقعہ حضرت ابن ام کلثوم ؓ کا ہے، کہ انھوں نے دربارِ رسالت میں درخواست کی کہ میں ایک نابینا آدمی ہوں، میرا گھر مسجد سے دور ہے، اور مجھے مسجد تک لے جانے والا کوئی نہیں ہے، مزید براں یہ کہ شہر میں موذی جانور اور درندے عموماً پھرا کرتے ہیں ، کیا ان عذروں کے ہوتے ہوئے جماعت سے غیر حاضری کی میرے لیے کوئی گنجائش نکل سکتی
ہے کہ حضرت کے حکم سے میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں۔ یہ سن کر حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’تم اذان سنتے ہو‘‘؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں! حضرت سنتا ہوں: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو پھر رخصت کیسے مل سکتی ہے، جماعت کے لیے مسجد ہی آیا کرو‘‘۔ 1
اس قدر مجبوریوں کا سامنا ہے، پھر بھی خود سے ان کو اپنے لیے حیلہ بہانہ نہ بنایا، بلکہ خدمتِ رسالت میں عذر پیش کرکے اجازت چاہی، اور پھر بھی آں حضرت ﷺ نے ان عذروں کے رہتے ہوئے جو جواب دیا، وہ جماعت کی اہمیت کے اندازے کے لیے کافی ہے۔
بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ عتبان بن مالک ؓ کا واقعہ2 حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے، جس میں اس کی صراحت ہے کہ بظاہر اسی طرح کے عذر کی وجہ سے آپ نے ان کو رخصت دے دی تھی، اور اب بھی فقہا اس واقعے کے پیشِ نظر رخصت کے حق