امام بخاری ؒ باجماعت نماز کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
وکان الأسود ؓ إذا فاتتہ الجماعۃ ذہب إلی مسجد آخر۔ وجاء أنس ؓ إلی مسجد قد صلي فیہ، فأذن، وأقام، وصلی جماعۃ۔ (البخاري)
حضرت اسود ؓ کی جب جماعت چھوٹ جاتی تھی، تو جماعت کے لیے دوسری مسجد میں تشریف لے جاتے۔ اور حضرت انس ؓ ایک مسجد میں آئے جہاں جماعت ہو چکی تھی، تو آپ نے پھر اذان پکاری، اقامت کہی اور باجماعت نماز ادا کی۔
ان تعلیقات سے بھی معلوم ہوا کہ جماعت کی نماز کو مسجد کے ساتھ خصوصیت حاصل ہے، تب تو حضرت اسود ؓ جماعت نہ ملنے کی صورت میں دوسری مسجد کا قصد فرماتے اور وہاں جماعت سے نماز ادا کرنے کی سعی کرتے، گھر وغیرہ میں جماعتِ ثانیہ کا خیال تک نہ کرتے۔ چناں چہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ اس کے تحت رقمطراز ہیں:
والذي یظہر لي أن البخاري قصد الإشارۃ بأثر الأسود وأنس ؓ إلی أن الفضل الوارد في أحادیث الباب مقصور علی من جمَّع في المسجد دون من جمَّع في بیتہ؛ لأن التجمیع لو لم یکن مختصا بالمسجد لجمَّع الأسود في مکانہ، ولم ینتقل إلی مسجد آخر لطلب الجماعۃ، ولما جائَ أنس ؓ إلی مسجد بني رفاعۃ۔
مجھ پر جو کچھ ظاہر ہوا وہ یہ ہے کہ بخاری ؒ نے حضرت اسود ؓ اور انس ؓ کے اثر کو بیان کرکے اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہا ہے کہ جو فضیلت اور ثواب کی زیادتی اس باب کی حدیثوں میں مذکور ہے، وہ اس باجماعت نماز کے لیے متعین ہے جو مسجد میں پڑھی جائے، گھر کی جماعت کے لیے نہیں۔ اگر جماعت کی نماز مسجد کے ساتھ مخصوص نہ ہوتی تو یقینا حضرت اسود ؓ اپنے مکان میں جماعت کرتے اور طلبِ جماعت کے لیے دوسری مسجد نہ جاتے، اور نہ حضرت انس ؓ ہی بنی رفاعہ کی مسجد میں تشریف لاتے۔
ان تصریحات کے بعد یہ مسئلہ صاف ہو جاتا ہے کہ جماعت کی نماز مسجد ہی میں مطلوب ہے اور مسجد کو اس باب میں خصوصیت حاصل ہے۔ گھر میں باجماعت نماز مسجد چھوڑ کر پڑھی نہیں جاسکتی۔ یہی حافظ ابنِ حجر ؒ ایک دوسری حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں:
والمقصود الأصلي في الجماعۃ إیقاعہا في المسجد۔ (فتح الباري)
جماعت کا مقصدِ اصلی یہ ہے کہ وہ مسجد میں قائم کی جائے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلی ؒ لکھتے ہیں:
در ’’بدائع‘‘ گفتہ کہ واجب است برحر، عاقل، بالغ کہ معذور نیست حاضر شدن بمسجد برائے جماعت (اشعۃ اللمات : ۱/۲۴۶)
بدائع میں ہے کہ آزاد، عاقل، بالغ، جو معذور نہیں ہے، اس پر جماعت کی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونا واجب ہے۔
حافظ ابنِ قیم ؒ تو تصریح فرماتے ہیں کہ عذرِ شرعی کے نہ ہونے کی شکل میں جماعت کی نماز کے لیے مسجد کی حاضری فرضِ عین ہے، البتہ جب کوئی عذرِ شرعی درپیش آجائے