قاہرہ کی مسجد ازہر بھی۔ بڑی مسجدوں سے لے کر دیہاتوں اور قریوں کی چھوٹی سِفال پوش مسجدوں تک، سب پر جو کچھ خرچ ہو چکا ہے، کیا یہ مبالغہ ہوگا اگر اربوں میں اس رقم کا تخمینہ کیا جائے جو ان مسجدوں کی تعمیر کے لیے مسلمان اپنی جیبوں سے نکال چکے ہیں؟ ان مسجدوں کی گنجایش کے سوا ہر مسجد تقریباً اپنے ارد گرد وقفی زمین کا کافی حصہ رکھتی ہے، جن کو خرید نے پر ہم آگر امادہ ہوں تو کروڑ ہا کروڑ کی رقم بھی کافی نہیں ہوسکتی۔ ہم مسجدوں کی ان ملحقہ زمینوں سے کام بھی لے سکتے ہیں اگر مساجد کی عمارت کافی نہ ہو۔
کیا کیا کام لے سکتے ہیں؟ مدارس کا کام، اطراف کی زمینوں میں طلبہ کی قیام گاہوں کی تعمیر کا کام، شفاخانہ کا کام اور باخود ہا پنچایت کے اصول پر باہمی جھگڑوں کے چکانے کے لیے دارالقضا کا کام، مسافروں کی قیام گاہ کا کام۔
عمارت کی خاص قسم جس کا نام ’’المسجد‘‘ ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کا قائم کیا ہوا ایک نظام ہے۔ سب سے پہلی مسجد جو مدینہ منورہ میں بنائی گئی وہ پانچوں وقت کی نماز کی جگہ بھی تھی، اس میں صفّہ کا مدرسہ بھی تھا، اسی کے ملحقہ حصے میں مسافر بھی ٹھہرائے جاتے تھے اور زخمیوں کے لیے خیمہ بھی اسی حصہ میں گاڑا جاتا تھا، مقدمات بھی اسی عمارت میں طے ہوتے تھے۔ بس ہمیں جو کچھ کرنا ہے سب کا نمونہ اسی پہلی مسجد میں قائم کردیا گیا تھا، بلکہ عہدِ فاروقی میں اسی کے متصل ادب وشاعری کے چرچے کے لیے ایک جگہ بھی مختص کردی گئی تھی۔ اسلامی ممالک کے طول وعرض میں ہر میل دو میل پر عمارتیں بھی بن چکی ہیں، کافی اراضی ان عمارتوں کے اردگرد حاصل کرلی گئی ہیں۔ صرف ان ہی کاموں کو کرنے کی ضرورت ہے جو سب سے پہلی مسجد میں انجام دیے جاتے تھے۔
خدا جزائے خیر دے مولانا ظفیر الدین صدر دارالعلوم معینیہ سانحہ (بہار) کو، کہ اربوں کا جو سرمایہ مسلمانوں کے سامنے رکھا ہوا ہے اس سرمایہ سے استفادہ کا مشورہ اس کتاب کے ذریعے مولانا نے پیش کیا ہے، اور اسی کے ساتھ عموماً ناواقفیت کی وجہ سے لوگوں میں مساجد کے احترام اور اُس کے آداب وضوابط کے متعلق جو کوتاہیاں اور غفلتیں پیدا ہوگئی ہیں، مولانا نے ان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ صحیح حدیثوں اور فقہ کی مستند کتابوں سے معلومات کا قیمتی ذخیرہ اس کتاب میں جمع کردیا ہے۔ عربی میں شام کے ایک عالم جمال الدین القاسمی کی کتاب اس باب میں مشہور تھی، مگر میرا خیال ہے کہ احتوا واحاطہ میں مولانا ظفیر الدین کی کتاب کو دیکھ کر ترک الأول للآخر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
ہذا والسلام
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم