۲/۸۸۰)
متولی وقف کی بچت سے یعنی صرف کرنے کے بعد جو بچے گا، اس سے ذرائع آمدنی خرید کرے گا جو وقف ہی ہوگا، لیکن اس خریدی ہوئی چیز کا حکم وقف کا نہ ہوگا۔ یعنی ضرورت کے وقت یہ بعد کی خریدی ہوئی چیز فروحت ہوسکتی ہے۔ (ایضاً)
وقف میں جو گھر ہے اس میں کوئی متولی کی اجازت حاصل کیے بغیر رہے گا، تو اس کو اجرتِ مثل وجوباً دینی ہوگی۔ (ایضاً)
متولی ضرورت کے وقت وقف میں اپنا مال لگا سکتا ہے، اور اس نے اگر اپنی لکڑی مسجد کے کام میں دی ہے تو پھر لے سکتا ہے۔ (فتح القدیر کشوری: ۲/۸۸۰)
متولی وقف کی آمدنی سے تیل، چٹائی اور فرش کے لیے اینٹ سمنٹ خرید سکتا ہے، بشر ط یہ کہ وقف نامہ میں اس کی گنجائش ہو، مثلاً یہ جملہ ہو کہ مسجد کے مصالح اور اس کی ضرورت میں خرچ کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر کسی متعین کام کے لیے ہی وقف کی آمدنی وقف کی گئی ہو تو اس کے سوا دوسرے کام میں نہیں خرچ کر سکتے، مثلاً مسجد بنانے ہی کے لیے ہو تو اس سے چٹائی، روشنی اور فرش وغیرہ کا نظم نہیں کرسکتے۔ (ایضاً)
متولی کو جب وقف نامہ کی تفصیل کا علم نہ ہو تو اس مجبوری میں اپنے پیشرو کی تقلید کرے گا۔ (ایضاً)
متولی وقف کے لیے اس وقت تک قرض نہیں لے سکتا جب تک کوئی ضروری اور ناگزیر امر پیش نہ آجائے، اور پھر ایسے وقت میں قاضی کی اجازت بھی حاصل کرنا ضروری ہے، قاضی
کی اجازت کے بغیر قرض نہ لے گا۔ قاضی کی اجازت سے قرض ضرورت کے لیے لیا گیا تو اسے وقف کی آمدنی سے ادا کرے گا، اسی طرح وقف میں زراعت ہوتی ہو اور بیج نہ ہو، تو قاضی کی اجازت سے بیج بھی قرض لے سکتا ہے۔ واضح رہے متولی کے لیے یہ قرض اسی وقت جائز ہے جب اس کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور وہ اسے ادا بھی کر دے۔ (فتح القدیر: ۲/۸۸۱)
متولی کے پاس وقف کے روپے تھے، مگر اس نے وقف کے لیے کوئی چیز اپنے ذاتی روپے سے خریدی تو ایسی حالت میں بالاتفاق یہ جائز ہے کہ وقف کے خزانے سے اپنے روپے لے لے۔ (ایضاً)
وقف شدہ مکان کو متولی رہن (گروی) نہیں رکھ سکتا، اگر اس نے رہن رکھ دیا اور مرتہن نے اس میں سکونت اختیار کرلی، تو ایسی صورت میں اس کو مروجہ کرایہ دینا پڑے گا۔ (ایضاً)
متولی نے وقف کے روپے اپنی ضرورت میں صرف کردیے، پھر اتنا ہی اپنے مال سے وقف میں خرچ کردیا، یا وقف کے خزانہ میں داخل کردیا، تو اس پر ضمان نہیں ہے۔ (ایضاً)
وقف کے روپے جمع تھے، کفار کی جانب سے مسلمانوں پر ناگہانی آفت یا مصیبت ٹوٹ پڑی جس کے دفعیہ کے لیے روپے کی ضرورت ہوئی، تو ایسی حالت میں دیکھا جائے کہ اگر جامع مسجد سے متعلق اور مسجد کو اس کی فوری ضرورت نہیں ہے، تو